ہوس اقتدار اور تحفظ اقتدار، جموںوکشمیر کے سیاسی منظرنامے، سیاستدانوں اور سیاسی پارٹیوں کا اس کے ساتھ ایسا تعلق اور رشتہ ہے جو چاہئے کچھ بھی ہو، ہوائوں کے جکڑ، طوفان، آندھی ، سونامی کچھ بھی اس رشتے کا بگاڑ نہیں سکتی، سیاسی پارٹیوں اور سیاستدانوں کا عوامی مسائل کا تذکرہ چاہئے وہ منشوروں کے حوالہ سے کریں یا تقریروں کے ذریعے صرف اور صرف لپ سروس کی حد تک ہی ہیں، وقت اور خود سیاسی لیڈر وں کے طرزعمل سے یہ بات اب تک بار بار ثابت ہو تی رہی ہے اگر انہوںنے اپنے وعدوںکے مطابق عوامی مسائل حل کئے ہوتے تو ہر پانچ، چھ سال بعد الیکشن کے انعقاد کے حوالہ سے انہی عوامی معاملات اور مسائل کو کچھ دوسرے لبادوں میں پیش کرنے اور رجوع کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی، یہ اس بات کا ایک اور ثبوت ہے کہ سیاستدان محض ہوس اقتدار اور حصول اقتدار کی خاطر عوام کے احساسات اور جذبات کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں بلکہ تلخ سچ یہ ہے کہ کھلواڑ کا یہ راستہ نہ صرف مجرمانہ ہے بلکہ مکروہ ترین ہے ۔
اس تعلق سے کئی ایک معاملات کا حوالہ دیاجاسکتا ہے ۔ اقتدار حاصل کرنے کیلئے جہاں حکمران جماعت بی جے پی فی الوقت الیکشن میدان میں ’’جموں کارڈ‘‘ کھیل رہی ہے، جموں کے لوگوں کے جذبات کو ہر ممکن سطح پر اُبھارنے کی زبردست کوشش کررہی ہے، ڈوگرہ حکمران مہاراجہ ہری سنگھ کی حکمرانی، زندگی کے مختلف پہلوئوں اور ان کے کارناموں کو یاد کرکے انہیں ایک منفرد اور قدآور روپ میں پیش کررہی ہے،اپوزیشن کا کوئی لیڈر کسی بھی حوالہ سے مہاراجہ ہری سنگھ کا نام لینے کی کوشش کرکے کوئی سوال کررہا ہے تو پلٹ وار کرکے اس کی بولتی بند کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اس مخصوص اشو کے تناظرمیں پی ڈی پی سے وابستہ ایک لیڈر نے سوال کیا کہ حکمران جماعت کیوں آخری ڈوگرہ حکمران کی یوم ولادت پر جشن منارہی ہے او رخراج عقیدت کے طورچھٹی کا بھی اعلان کیا گیا ہے جبکہ اسی ڈوگرہ حکمران نے پورے جموں وکشمیر بشمول لداخ، گلگت بلتستان تک کے سارے خطے کو ایک لڑی میں پروسنے کا کارنامہ انجام دیا تھا لیکن مہاراجہ کے اُسی خطے کی چیر پھاڑ کرکے کئی حصوں میںتقسیم کردیاگیا۔اُسی مہاراجہ نے جموںوکشمیر اور اس کے لوگوں کے وسیع تر مفادات، مستقبل کے تحفظ اور حقوق کی ضمانت کے حوالہ سے سٹیٹ سبجیکٹ قانون نافذ کردیا لیکن اسی حکمران جماعت نے اُس قانون کو ختم کرکے کیا مہاراجہ کی روح کو نہیں تڑپایا ۔ یہ اور کچھ دوسرے چبھتے سوال کئے جارہے ہیں لیکن جواب میں کہا جارہاہے کہ مہاراجہ کی توہین کی جارہی ہے۔ جموں کے لوگوں کے جذبات اُکسانے کی غرض سے نعرہ دیا جارہا ہے کہ اب کی بار جموں کی سرکار ۔پوچھا جارہا ہے کہ کیا اس نعرہ کی حقیقت اور حیثیت علاقہ پرستی اور فرقہ پرستی سے عبارت نہیں، اس نعرہ کے تناظرمیں کشمیر ان کے مشن اور ایجنڈا میں کہاں نظرآرہا ہے۔
حصول اقتدار کی اس دوڑ میںگوجراور پہاڑیوں، شیڈولڈ کاسٹ اور ٹرائب، پاکستان سے آئے پناہ گزینوں، پنجاب سے لائے گئے صفائی کرمچاریوں اور دوسرے کئی طبقوں سے مخاطب ہوکر ان کا ووٹ حاصل کرنے کے مشن کو بھی عملی جامہ پہنایاجارہاہے، یہ سارے طریقے ووٹوں کی تقسیم کی طرف واضح اشارہ تو کررہے ہیں لیکن یہ بات بھی واضح ہورہی ہے کہ پالیسی اور اپروچ تقسیم کرو اور اقتدار کا راستہ ہموار کرو کے سوا اور کچھ نہیں۔
یہ جموں کا منظرنامہ ہے، کشمیر کا منظرنامہ اگر چہ اس سے ہٹ کرہے لیکن مختلف بھی نہیں۔ ممنوعہ جماعت اسلامی اور حریت کانفرنس سے ماضی قریب میں وابستہ رہے لوگ بھی الیکشن میدان میں کود گئے ہیں۔ بحیثیت آزاد اُمیدوار وں کے الیکشن لڑرہے ہیں،لیکن بحیثیت مجموعی یہ الیکشن میدان میں اپنی موجودگی کو عوام کو درپیش سنگین نوعیت کے مسائل اور معاملات کا کوئی آبرومندانہ اور دیر پا حل تلا ش کرنے کیلئے خود کو وقف کرنے کیلئے پیش نہیں کررہے ہیں بلکہ ان میں سے ایک کاکہنا ہے کہ وہ کشمیر میں ’مسلم سٹیٹ کی تشکیل ‘ کیلئے میدان میں ہے، دوسرے کا کہنا ہے کہ وہ اسمبلی میں اس لئے داخل ہونا چاہتے ہیں تاکہ جماعت اسلامی پر عائد پابندی کو ہٹایا جاسکے اور جیلوں میں جو لوگ نظر بند ہیں انہیں رہا کرایاجائے ۔
ممنوعہ جماعت پر پابندی ہٹانے اور جیلوں سے نظربندوں کی رہائی یہ دونوں معاملات انتظامی نہیں بلکہ جوڈیشری کے حداختیار میں ہے اور اس نوعیت کے معاملات عدالتوں میں ہی طے کئے جاسکتے ہیں۔ لوگوں کو درپیش روز مرہ کے معاملات ، آبادی کے تشخص اور ثقافت کے تحفظ ، روزگار، روٹی کپڑا اور مکان ایسے اشوز کے حوالہ سے الیکشن کا اہتمام وانعقاد کیاجارہاہے۔ لوگوںنے کسی جماعت پر پابندی نہیں لگائی اور نہ ہی کوئی جیل کی زندگی عوام کے حقوق کی لڑائی لڑنے کی پاداش میں بسر کررہاہے۔ جیل یاترا اس کی اپنی خواہش ، نظریہ اور موقف چاہے سیاسی ہو یا ذاتی کی تعبیر کے سوا کچھ نہیں۔ لوگ کیوں اس نوعیت کے اشوز پر ووٹ دیں گے، جوووٹ نہ ان کی پیٹ کا دوزخ ٹھنڈا کرسکتا ہے ، نہ حال اور مستقبل کا تحفظ یقینی بناسکتا ہے اور نہ ہی معاشرتی سطح پر کسی تبدیلی کا موجب بن سکتا ہے۔
بی جے پی کی اب کی بار جموں کی سرکاری کا نعرہ کے ساتھ ہی پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی اپنی تقریروں اور جلسیوں میں بار بار دعویٰ کررہی ہے کہ ان کی پارٹی کی حمایت کے بغیر کوئی سرکار نہیں بن سکتی ۔ انکی بیٹی خود کو اور اپنی پارٹی کو کنگ میکر کے طور پیش کررہی ہے۔ ہمارے تعاون کے بغیر اگلی سرکاری نہیں بن سکتی ہے کے اندر جو پیغام ہے وہ کس کے لئے ہے اور کس سے مخاطب ہے؟ نیشنل کانفرنس اور کانگریس دونوں کو پی ڈی پی بڑے پیمانے پر نشانہ بنارہی ہے اور ان دونوں پارٹیوں پر الزام لگارہی ہے کہ انہوںنے ہی کشمیرکو تباہ وبرباد بھی کیا اور لوٹا بھی!
یہ ایک تصویر ہے ۔ جیل سے عارضی طور سے چھوٹے انجینئر رشید پارلیمانی الیکشن میں غیر متوقع کامیابی جسے کچھ سنجیدہ حلقے خدائی مخلوق کی غیبی امداد قرار دے رہے ہیں آج کل سرخیوں میں بھی ہے اور ٹیلی ویژن سکرینوں پر دوسروں کے مقابلے میں بہت زیادہ نظرآرہے ہیں۔ ان سے سوال کیاجارہاہے کہ کیا وہ خود کو اب کنگ میکرتصور کررہے ہیں یا اس رول میں خود کو دیکھ رہے ہیں تو ان کا جواب نہیں میں ہے البتہ وہ دعویٰ کررہے ہیں کہ وہ کنگ میکر نہیں بلکہ خود کو کنگ مانتے ہیں۔
ابھی بغیر تاجی پوشی کے یہ نیا کنگ اب اپنے کل تک کے سیاسی یار کونیشنل کانفرنس کے ساتھ جوڑ کر اپنے خلاف سازشوں کا جال بچھانے کا دعویٰ کررہا ہے ۔ حالانکہ کون نہیں جانتاکہ نیشنل کانفرنس کو ان کا یہ سیاسی دوست کشمیر اور کشمیریوں کی تباہی اور بدترین دُشمن قراردیتاآرہاہے جبکہ پارلیمانی الیکشن کے دوران ان کا یہی سیاسی دوست آنکھیں بند کرکے حال کے کنگ کو ووٹ کا حقدار اور مظلوم کے طور پیش کرتارہا۔ عقل محو حیران ہے۔
۔۔۔