پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی کی کشمیر کی سیاست میں داخلہ بے شک دھماکہ دار رہا ہے، لیکن اس مدت کے دوران اس کے دو روپ واضح طور سے سامنے آئے ہیں۔ ایک روپ اقتدار سے باہر بحیثیت آزاد سیاستدان کے جبکہ دوسرا روپ اقتدارمیں بحیثیت وزیر کے۔ محبوبہ جی کے ان دونوں روپوں کے بارے میں مختصر طور سے یہی کہاجاسکتا ہے کہ ’’کبھی شعلہ تو کبھی شبنم‘‘۔
اس وقت الیکشن کا دور ہے، دوسرے کئی سیاستدانوں کی طرح محبوبہ جی بھی بہت مصروف ہے، اپنی پارٹی کے اُمیدواروں کے حق میں انتخابی مہم شدومد کے ساتھ منظم بھی کررہی ہے اور چلا بھی رہی ہے۔ بیانات کے ایسے میزائل داغنے کا عمل بھی جاری ہے جو پہلے مشاہدے میں نہیں آئے ہیں۔ اپنے سیاسی حریفوں باالخصوص نیشنل کانفرنس اور زائد از تین سال تک شریک اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کو تنقید کا نشانہ بناکر ان پر زبردست تیر برسارہی ہے۔ اس حوالہ سے کئی ایک دعویٰ بھی ان کی کی طرف سے سامنے آرہے ہیں جن میں سے کچھ تاریخی (ماضی سے) تعلق رکھتے ہیں جبکہ کچھ ایک کا تعلق ماضی قریب اور حال سے ہے۔
حکمران جماعت بی جے پی کی جانب سے تین روایتی خاندانوں… این سی، پی ڈی پی اور کانگریس کومتواتر نشانہ بنانے اور جموں وکشمیر کی سیاست، اقتدار اور انتظامیہ میں ان کے رول کے تعلق سے جو تنقید کی جارہی ہے جبکہ اُس تنقید کی آڑ میں پاکستان کا نام بھی لیاجارہاہے پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے محبوبہ جی نے بی جے پی کی یہ کہکر سرزنش کی کہ ’’ بی جے پی کو شیخ خاندان کاشکر گزار رہنا چاہئے کہ ا س کی وجہ سے ہی جموں وکشمیر کا ملک کے ساتھ الحاق ہوا تھا‘‘لیکن دوسرے ہی لمحے عمرعبداللہ کو یہ طعنہ دیا کہ اس نے (بی جے پی ) کے ایجنڈاکو یہاں نافذ کیا، البتہ بی جے پی کے ساتھ اپنی حکومت سازی کے فیصلے کی خودشاباشی دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ بی جے پی کے ساتھ شرائط کی بُنیادوں پر سرکار بنائی تھی۔
سیاستدان چاہئے محبوبہ جی ہے، الطاف بخاری ہے، عمر یا اس کا باپ فاروق صاحب ہیں کو یہ حق اور آزادی حاصل ہے کہ اپنی سیاست اور اپنے نظریات کے حوالہ سے لوگوں کو اپنی طرف مائل کرے اور انہیں ساتھ دینے اور ان کا تعاون اور اشتراک حاصل کرنے کی ہرممکن کوشش کرے لیکن جب یہی سیاستدان تاریخی حقائق کو ان کے سیاق وسباق سے ہٹ کرتوڑ مروڑ کر اپنی من مرضی کے مطابق لوگوں کے سامنے پیش کرے تو ماضی کے واقعات، معاملات ،سیاستدانوں کے طرزعمل ، اپروچ اور کردار کی طرف فطرتی ردعمل کے طور توجہ مبذول ہوجاتی ہے۔
محبوبہ جی کے ان تینوں باتوں پر غور اور تجزیہ کی گنجائش ہے۔ شیخ محمدعبداللہ کے الحاق کی سمت میں رول اور کردار تاریخی ہے لیکن جس شخصیت کی دوستی کے سحر میں مبتلا ہوکر الحاق کو یقینی بنایا اُس دوست نے شیخ محمدعبداللہ سے وفانہیں کی تو بی جے پی ہویا اور کوئی ان سے اُمید ہی کیا۔ البتہ نہرو کی جانشین اندرا گاندھی نے بحیثیت وزیراعظم اپنے باپ کی غلطیوں او رعہد شکنیوں کا ازالہ کرکے اکارڈ کا راستہ اختیارکیا۔ یہ بھی تاریخ ہی کا حصہ ہے۔ محبوبہ جی کی باتوں پر مزید غور کیاجائے یا بین السطور پڑھنے کی کوشش کی جائے توان کے کہنے کا یہ صاف مطلب ہے کہ اگر شیخ محمدعبداللہ نے الحاق میں کردارادانہ کیا ہوتا تو کشمیر پاکستان کا حصہ بن چکا ہوتا اور وہ اور ان کی پارٹی(پی ڈی پی) اُس پاکستان میں کشمیر کے حوالہ سے شریک اقتدار ہوتی۔
بی جے پی کا ایجنڈا جموں وکشمیر میں نافذکرنے کا عمر عبداللہ کو طعنہ کچھ عجیب سالگتاہے۔ اگر سیاست کا پیمانہ یہی ہے تو اہم سوال یہ ہے کہ پھران کے اپنے والد مرحوم مفتی محمدسعید جو جتنا پارٹی دور اقتدار کے دوران ملک کے وزیر داخلہ کی کرسی پر فائز رہے جبکہ یہ وہی جتنا پارٹی ہے جس کو بعد میں بی جے پی کا نام دیا گیا اس کو کس کھاتے میں شمار کیاجائے۔ پھر مفتی صاحب کی بی جے پی کے ساتھ حکومت سازی کا فیصلہ اور ان کی وفات کے بعد خود محبوبہ جی کا بی جے پی کے ساتھ مخلوط حکومت کی قیادت کو کس دوسرے کھاتے میں شمار کیاجانا چاہئے۔ نیز یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ محبوبہ جی کے بھائی اور مفتی محمدسعید کے فرزند تصدق مفتی نے بحیثیت مخلوط وزیر کے کیا اس مخلوط حکومت کے شرکا کو ’’پارٹنر س ان کرائم ‘‘قرارنہیں دیا تھا۔ یہ کہنا کہ بی جے پی کے ساتھ حکومت سازی کے تعلق سے شرائط طے کئے گئے تھے ایک بھونڈا اور مضحکہ خیز دعویٰ ہے۔
بہرحال اُس دورکی تاریخ اور پیش آمدہ واقعات اور معاملات کے تعلق سے بہت کچھ ریکارڈ پر ہے، سینوں میں موجودہے اور جوابھی اُس دور کے تعلق سے حیات ہیں وہ اُن معاملات اور واقعات کے حوالہ سے ہر سیاسی کردار کے کردار اور قول وفعل اور درپردہ سازشانہ کردار میں بطور معاونت کار کے بھر پور علمیت رکھتے ہیں۔ سابق وزیراعلیٰ غلام نبی آزاد جموں وکشمیر سے کوئی الیکشن نہیں جیت سکا، جموں وکشمیر سے سینکڑوں کلو میٹر دور الیکشن میدان میں کود گیا، مفتی محمدسعید کو بھی اُتر پردیش کے کسی ایک انتخابی حلقے کا سہارا لینا پڑا، وجہ صاف تھی، یہ سیاستدان تو تھے لیکن جموں وکشمیرکے حوالہ سے قدآور نہیں تھے۔ یہی وہ چھوٹا سیاسی قد تھا جس کے ہوتے پی ڈی پی کو بحیثیت مجموعی جماعت اسلامی کا بار بار اسہارا لینا پڑا، شاید اسی اہم اشو کا حوالہ دیتے ہوئے ممنوعہ جماعت اسلامی کے ایک لیڈر نے ابھی حال ہی میں کہاکہ ’’ ہمیں پی ڈی پی کی عنایت درکار نہیں، ہمارے پاس بولنے کو بہت کچھ ہے لیکن اظہار نہیں کریں گے‘‘۔
اقتدار کی بدمستی اور نشہ کبھی کبھار سرچڑھ ہی جاتا ہے ، کیا یہ تاریخی سچ نہیں کہ وزیراعظم کی سٹیج پر موجودگی کے باوجود مفتی محمدسعید نے جموںوکشمیر میںاُس دور کے الیکشن کا پاکستان کے تعاون اور خیر سگالی کا ثمرہ قراردیاتھا اور ساتھ ہی یہ بھی اعلان کیا تھا کہ ’ میں اب جبکہ کرسی پر بیٹھ گیا ہوں تو میں جنگجوئوں کی ترجمانی کروں گا‘۔ جنگجوئوں کی ترجمانی کے اس دعویٰ کے ساتھ ہی کشمیر میں کچھ ایک واقعات ایسے بھی رونما ہوئے جو دلخراش ہی نہیں رہے بلکہ کئی نئے مسائل بھی پیدا ہوگئے۔ جنگجوئوں کا وہ مخصوص گروپ جو دہلی کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کرچکا تھا کو پر اسرار طور سے راستے سے ہٹادیا گیا ، ان نصف درجن کے قریب مذاکرات کے حامی گروپ کو کس نے قتل کیا اور کیوں، یہ سوال آج بھی کئی برس گذرنے کے باوجود تشنہ طلب ہے۔ خود مفتی صاحب کی وزارتی کونسل کے ایک ا ہم رکن ڈاکٹر لون کو سیکورٹی حصارمیں ان کی رہائش گاہ میں ہلاکت کا معمہ ابھی بھی حل طلب ہی ہے۔
مجموعی طور سے اگر یہ کہاجائے کہ کشمیر نشین باالخصوص قومی دھارے سے وابستہ کسی بھی سیاسی پارٹی جنہیں عرف عام میں کشمیر کی مخصوص اصطلاح کے تناظرمیں جرگہ کہا جارہاہے نے کبھی بھی اور کسی بھی مرحلہ پر کشمیری عوام سے وفانہیں کی بلکہ ان کے احساسات اور جذبات کا استحصال کرکے اپنی سوداگرانہ ذہنیت کی ہی آبیاری کرتے رہے ہیں جبکہ دوسرے سیاسی مکتب سے وابستہ سیاستدان سرحد پار کے آقائوں کی ملازمت کرتے کرتے نہ صرف بڑے بڑے سرمایہ دار بن گئے بلکہ کشمیر کو تباہی وبربادی سے بھی ہم کنار کرنے میں بُنیادی کردار اداکرتے رہے۔
اگر مفتی تصدق کے بقول ان کی جماعت اور بی جے پی پارٹنرس ان کرائم رہے ہیں تو دوسری جماعتیں بھی اپنے اپنے مخصوص کرائم پارٹنرس رکھتی ہیں۔