سرینگر//
کشمیری پنڈتوں نے منگل کو خبردار کیا کہ اگر حکومت وادی میں دہشت گردوں کے ہاتھوں بے گناہوں کی ہلاکتوں کا ۲۴ گھنٹے کے اندر کوئی مضبوط حل فراہم کرنے میں ناکام رہتی ہے تو ’بڑے پیمانے پر نقل مکانی‘ کی جائے گی۔
یہ اعلان سرینگر میں مشتعل پنڈتوں کے احتجاج کے دوران سامنے آیا جب جموں ڈویڑن کے سانبہ سے تعلق رکھنے والی ایک اساتذہ کو کولگام کے ہائی اسکول گوپال پورہ علاقے میں صبح دہشت گردوں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
ایک پولیس ترجمان نے ٹویٹس کے ذریعے تفصیلات فراہم کرتے ہوئے کہا کہ کولگام کے ہائی اسکول گوپال پورہ میں جنگجوؤں نے ایک ہندو خاتون ٹیچر پر گولیاں چلائیں جس کے نتیجے میں وہ شدید زخمی ہوگئی۔
ترجمان نے کہا کہ خاتون ٹیچر کو فوری طور ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاکر دم توڑ گئی۔
مقتولہ استانی کی شناخت رجنی ساکن ضلع سانبہ کے بطور کی گئی ہے ۔ ترجمان نے کہا کہ واقعے کے بعد علاقے کو محاصرے میں لیا گیا اور حملہ آوروں کی تلاش شروع کر دی گئی۔
اس ہلاکت کیخلاف وادی میں کئی مقامات پر مظاہرے ہوئے جن میں وزیر اعظم پیکیج کے تحت وادی میں تعینات کشمیری پنڈتوں نے حصہ لیا ۔
مظاہرے میں شامل امیت کول نے انکشاف کیا کہ حالات معمول پر آنے تک وہ’محفوظ جگہ‘ پر منتقل ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے ہلاکتوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
کول نے کہا ’’ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اگر حکومت ۲۴ گھنٹوں میں ہمارے لیے کوئی سخت فیصلہ لینے میں ناکام رہتی ہے، تو ہم وادی سے نکل جائیں گے اور ایک بار پھر بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوگی‘‘۔
کول کا مزید کہنا تھا’’جب ہمارا وفد لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا سے ملا تو ہم نے ان سے ہمیں بچانے کی درخواست کی اور ہمارے میمورنڈم میں یہ بھی لکھا گیا کہ جب تک کشمیر میں حالات معمول پر آجائیں، ہمیں کچھ وقت کیلئے کچھ دوسری جگہوں پر منتقل کر دیا جائے‘‘۔
کول نے انسپکٹر جنرل آف پولیس وجے کمار کے حوالے سے کہا’’انہوں نے ہمیں یقین دلایا کہ وہ دو تین سالوں میں کشمیر کو’دہشت گردی سے پاک‘ کر دیں گے، اس لیے ہم نے ان سے کہا کہ وہ ہمیں اس وقت تک منتقل کر دیں‘‘۔انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا’’صرف ۱۲۵۰؍ افراد کو ٹرانزٹ کیمپوں میں جگہ دی گئی ہے، باقی ۴۰۰۰ لوگ کرائے کی رہائش گاہوں میں رہ رہے ہیں، اور ان سب کو ان کے گھروں تک پہنچ کر حفاظت اور تحفظ فراہم کرنا ایک ناممکن چیز ہے‘‘۔
مظاہرین نے اعلان کیا کہ ۲۴ گھنٹے تک احتجاج جاری رہے گا جب تک ان کا کوئی حل نہیں نکالا جاتا۔
اس دوران کشمیری پنڈتوں نے منگل کے روز کولگام میں ایک ہندو خاتون اسکول ٹیچر کی ہلاکت کے خلاف سرینگر سمیت وادی کشمیر کے مختلف علاقوں میں احتجاج درج کیا۔
احتجاجی محفوظ مقامات پر تعینات کرنے کے مطالبوں کو لے کر جم کر نعرہ بازی کر رہے تھے ۔قاضی گنڈ میں احتجاجیوں کے دھرنے سے قومی شاہراہ پر ٹریفک کی نقل و حمل متاثر ہوئی۔
سرینگر کے اندرا نگر علاقے میں احتجاج کے دوران ایک احتجاجی نے میڈیا کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں محفوظ مقامات پر تعینات کیا جائے ۔انہوں نے کہا کہ جب تک ایسا نہیں کیا جائے گا تب تک ہم دھرنے پر بیٹھ جائیں گے ۔ان کا کہنا تھا’’یہ ٹارگیٹ ہلاکتیں ہیں اور یہاں اقلیتی فرقے سے وابستہ لوگوں کو مارا جا رہا ہے ‘‘۔
احتجاجی نے کہا کہ یہاں کے اکثیرتی فرقے کو چاہئے کہ وہ ہمارے ساتھ کھڑے رہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارا ایک وفد حال ہی میں لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا صاحب سے بھی ملا اور ہم نے یہی گذارش کی کہ ہہمیں بچایا جائے ۔ان کا کہنا تھا کہ ہمیں کوئی سیکورٹی فراہم نہیں کی جا رہی ہے ۔قاضی گنڈ میں احتجاجیوں نے دھرنا دیا اور وہ اپنے مطالبات کو لے کر جم کر نعرہ بازی کر رہے تھے ۔
ان کے دھرنے سے قومی شاہراہ پر ٹریفک کی نقل و حمل متاثر ہو کر رہ گئی۔
بتادیں کہ کولگام کے گوپال پورہ علاقے کے ایک ہائی اسکول میں منگل کی صبح مشتبہ جنگجوؤں نے رجنی بالا نامی ایک ہندو خاتون ٹیچر پر گولیاں چلائیں جس کے نتیجے میں ان کی ہسپتال میں موت واقع ہوئی۔
قبل ازیں رواں ماہ کی۲۱تاریخ کو وسطی کشمیر کے ضلع بڈگام کے چاڈورہ علاقے میں نامعلوم بندوق برداروں نے راہل بٹ نامی ایک پنڈت سرکاری ملازم کو اپنے ہی دفتر میں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔