سرینگر//
سابق وزیر اور پیپلز کانفرنس (پی سی) کے صدر سجاد لون نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ شمالی ضلع کپوارہ کے دو اسمبلی حلقوں ، کپوارہ اور ہندوارہ سے انتخابات لڑیں گے۔
پی سی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ اس لئے لیا گیا تاکہ پارٹی دونوں حلقوں میں کامیاب ہو پائے۔ قبل ازیں، جموں کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے بھی وسطی کشمیر کی دو پارلیمانی نشستوں پر پرچہ نامزدگی داخل کی ہے۔
پیپلز کانفرنس کی جانب سے اجرا کئے گئے امیدواروں کی فہرست میں سجاد لون کا نام کپوارہ اور ہندوارہ حلقوں میں شامل کیا گیا ہے، جبکہ پارٹی کے جنرل سیکریٹری عمران انصاری حلقہ انتخاب پٹن سے دوبارہ اپنی قسمت آزمائی کریں گے۔
سابق ایم ایل اے بشیر احمد ڈار کو نئی حلقہ اسمبلی ترہگام سے امیدوار نامزد کیا گیا ہے۔ جبکہ ڈی ڈی سی چیئرمین کپوارہ اور پارٹی رکن عرفان پنڈت پوری حلقہ لنگیٹ سے انتخابات لڑیں گے۔
پارٹی نے نوجوان امیدارو مدثر اکبر کو لولاب حلقے سے امیدوار نامزد کیا ہے، مدثر اکبر پیشہ سے ایک استاد تھے۔ انہوں نے سعودی عرب کی ایک یونیورسٹی سے استعفیٰ دے کر انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔
سجاد غنی لون کا مقابلہ کپوارہ میں نیشنل کانفرنس کے صوبائی صدر اور سابق وزیر ناصر اسلم وانی سے ہوگا، جبکہ ہندوارہ حلقے میں ان کی انتخابی جنگ این سی کے سابق وزیر چودھری رمضان سے ہوگی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی کو مکمل یقین ہے کہ ہندوارہ حلقہ پر سجاد لون کا این سی کے ساتھ کڑا مقابلہ نہیں ہے۔
کیونکہ سنہ ۲۰۱۴ اسمبلی انتخابات میں انہوں نے این سی کے امیدوار چودھری رمضان کو پانچ ہزار ووٹ سے شکست دی تھی اور حالیہ پارلیمانی انتخابات میں سجاد لون کو اسی حلقے سے سات ہزار ووٹ کی سبقت تھی۔ جبکہ کپوارہ حلقے سے سجاد لون تیسرے نمبر پر تھے اور نیشنل کانفرنس دوسرے نمبر پر۔
پیپلز کانفرنس ذرائع کا کہنا ہے کہ سجاد لون ہی کپوارہ حلقہ پر نیشنل کانفرنس کو کڑا مقابلہ دے پائیں گے یا کامیاب بھی ہو سکتے ہیں۔
غور طلب ہے کہ سجاد لون کو حالیہ پارلیمانی انتخابات میں بارہمولہ نشست (جس میں کپوارہ ضلع کی سبھی اسمبلی نشستیں شامل ہیں) پر جیل میں قید لیڈر انجینئر رشید سے شکست سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ تاہم ضلع کپوارہ کے پانچ اسمبلی حلقوں میں انکو ووٹوں کی سبقت حاصل تھی۔
لوک سبھا انتخابات میں انجینئر رشید نے چار لاکھ ۷۲ہزار ووٹ لیکر اس نشست پر کامیابی حاصل کی جبکہ سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ انجینئر سے دو لاکھ سے بھی کم ووٹوں کے فرق سے پیچھے رہے انہیں دو لاکھ ۶۸ہزار ۳۳۹ووٹ ملے جبکہ سجاد لون کو صرف ایک لاکھ ۷۳ہزر ووٹ ملے۔
سجاد لون تین لاکھ ووٹوں کے مارجن سے یہ نشست ہار گئے تھے اور شکست کے بعد کئی ہفتوں تک سیاست سے ’سنیاس‘ لے لیا تھا۔