اپنے کشمیر… جموں کشمیر میں جمہوریت کا جشن منانے کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں…جمہوریت کا یہ جشن‘جو جموں کشمیر میں پورے دس برسوں کے بعد منایاجارہا ہے‘ شاندار ہو ‘ اس کیلئے ہر کوئی اپنی اپنی کوششوں میں مگن ہے‘ مصروف ہے ۔ یقینا جمہوریت کا جشن منانا کوئی آسان کام نہیں ہے… بالکل بھی نہیں ہے… کشمیر جیسی جگہ میں تو بالکل بھی نہیں ہے… اس لئے جو کوئی بھی جمہوریت کے اس جشن سے جڑا ہوا ہے ‘اسے کسی نہ کسی مشکل کا سامنا ہے‘ چیلنج کا سامنا ہے… لیکن … لیکن سب سے بڑا اور مشکل چیلنج کا سامنا عام لوگوں کو ہے… جموں کشمیر کے عام لوگوں کو ہے… اور اس لئے ہے کہ انہیں وہ کام کرنا ہے… جو بڑا سے بڑا جاسوس بھی نہیں کر پائیگا یا بڑے سے بڑے جاسوس کیلئے بھی مشکل ہو جائیگا اور… اور وہ کام ہے‘ سیاسی جماعتوں کی ڈھیر ساری باتوں میں سے سچ اور سچی بات کا پتہ لگانا ۔جو بھی بات کرتا ہے‘ اس کا سیاسی حریف اسے جھوٹ کا پلندہ قرار دیتا ہے…اسے مکر و فریب کہتا ہے… کوئی کسی کی کسی بھی بات کو سچ ماننے کیلئے تیار ہی نہیںہے… بالکل بھی نہیں ہے… ایسے میں عام لوگ بھروسہ کریں تو کس پر… کس کی بات کو سچ مانے گا اور کس کی بات کو جھوٹا سمجھے گا؟اپنے گورے گورے بانکے چھورے ‘عمر عبداللہ پی ڈی پی پر بی جے پی کو اپنے کاندھوں پر سوار کرکے کشمیر لانے کا الزام ہر دوسرے تیسرے دن دہراتے ہیں… اس بات کا ہمیشہ طعنہ دیتے ہیں… ہم بھی عمر کی اس بات سے اتفاق کرتے تھے … لیکن اب دیوندر سنگھ رانا ‘ جو کل تک عمر کے قریب ترین ساتھیوں میں سے ایک تھے‘ کاکہنا ہے کہ یہ عمر عبداللہ تھے… کوئی اور نہیں بلکہ عمر عبداللہ تھے جو ۲۰۱۴ میں بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرکے حکومت بنانا چاہتے تھے… چاہتے ہی نہیں تھے … بلکہ اس بات کو یقینی بنانے کیلئے بی جے پی کی کوئی بھی بات ‘ کوئی بھی شرط ماننے کو تیار تھے ۔یقینا عمر عبداللہ رانا کے اس دعوے کو مسترد کریں گے… اسے پائے حقارت سے ٹھکرائیں گے … لیکن… لیکن بات عمر یا رانا کی نہیں ہے… بلکہ لوگوں… عام لوگوں کی ہے کہ وہ کس کی بات کو سچ مانیں گے… کس کے دعوے کو صحیح قرار دیں گے… عمر یا پھر رانا کے… اور … اور اللہ میاں کی قسم یہ کوئی آسان کام نہیں ہے… بالکل بھی نہیں ہے ۔ ہے نا؟