بحیثیت سابق چیف سیکریٹری اور ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد مختلف علاقائی سیاسی پارٹیوں کے ساتھ وابستگی اور خاص طور سے خود پنڈت سماج کا فرد ہونے کے حوالہ سے مسٹربقایا جانتے ہیں کہ مائیگرنٹ کشمیری پنڈتوں کی حالت کیا ہے، ان کے مسائل اور معاملات کیا ہیں، ان کی اپنے اپنے آبائی گھروں کی اور واپسی کی راہ میں کون سی مشکلات اور معاملات حائل ہیں، پنڈتوں کے نام پر تنظیموں اور قیادت کے دعویداروں کے جو گروپ اس ساری مدت کے دوران سرگرم ہوتے رہے اور پنڈتوں کی واپسی اور باز آبادکاری کے تعلق سے بانت بانت کی بولیاں بولنے کے منفی اور مثبت اثرات کیا کچھ رہے اور سب سے بڑھ کر جہاں جہاں پنڈت برادری کے لوگ، گھرانے اور خاندان رہائش پذیر ہیں ان کی معاشی اور معاشرتی حالت کیا کچھ ہے کے تعلق سے بھر پور علمیت رکھتے ہیں۔
جموں میں یکم ستمبر کو منعقدہ پنڈتوں کے ساتھ وابستگی جتلانے والی تین تنظیموں کا ایک اجلاس منعقدہوا جس میں پنڈت برادری کو درپیش مسائل اور معاملات اور ان کی ممکنہ واپسی کے حوالہ سے طریقہ کار پر تفصیلی بحث ہوئی ، کئی تجاویز سامنے آئی البتہ جو کچھ اجلاس میں زیر بحث آتا رہا اس بارے میں مکمل جانکاری منظرعام پر نہیں آئی۔ اس اجلاس سے سابق چیف سیکریٹری مسٹر بقایا نے بھی خطاب کیا۔ لیکن اجلاس کے اگلے روز جب انہی پنڈت تنظیموں کی جانب سے ایک پریس کانفرنس کا اہتمام کیاجارہا تھا تو یہ ہنگامہ کی نذر ہوئی۔
پنڈت برادری سے وابستہ کچھ لوگ نمودار ہوئے اور اجلاس کے منتظمین پر یہ الزام عائد کیا کہ وہ بی جے پی کی فنڈنگ اور ہدایت پر اجلاس منعقد کرکے پنڈتوں کے جذبات اور احساسات کا استحصال کررہے ہیں۔ یہ الزام بھی لگایا گیا کہ اس اجلاس کے منتظمین کا مطالبہ یہ ہے کہ کشمیر کی سرزمین کو تقسیم کردیاجائے تاکہ یہ اپنے اور اپنے آقائوں کے ایجنڈا کو پایہ تکمیل تک پہنچاسکیں۔ کشمیری پنڈتوںاور کشمیری مسلمانوں کی اس تقسیم کو ہر گز برداشت کیاجائے گااور نہ ہی اس کی حمایت کی جاسکتی ہے۔ ان کا یہ مطالبہ بھی غیر اخلاقی اور ناجائز ہے کہ ریلیف کے حجم میں مزید دو ہزار روپے کا اضافہ کردیاجائے جبکہ مطالبہ کرنے والے بیرون جموںوکشمیر دہلی سمیت مختلف ریاستوں میں شاہانہ زندگی بسر کررہے ہیں اور ان کے بچے روزانہ کئی کئی سو روپیہ کا کافی کپ پی رہے ہیں۔
اگرچہ پنڈتوں کو درپیش یہ سارے مسائل اور معاملات ان کے اپنے اورداخلی ہیں لیکن کشمیری سماج کا ایک حصہ ہونے کے ناطے سارے کشمیریوں کی بھی کچھ ذمہ داریاں اور فرائض ہیں۔کشمیر کی مسلم آبادی ان فرائض اور ذمہ داریوں کو نبھاتی آرہی ہے۔ جو کشمیری پنڈت اپنے اپنے آبائی بستیوں میں رہائش پذیر ہیں ان کے بارے میں یہ بات واضح ہے کہ وہ اپنے مسلمان ہمسایوں کی مکمل حفاظت میں ہیں، ان کے دُکھ سکھ میں شریک ہیں، تعزیت میںبھی حصہ دار بن رہے ہیں اور کسی کے انتقال کی صورت میں وہ نہ صرف اپنا کاندھا پیش کررہے ہیں بلکہ آخری رسومات کی پنڈتوں کے مذہبی رسومات اور عقیدے کی پابندی کے ساتھ شریک بن رہے ہیں۔ اس ضمن میں گذرے ۳۰؍ سال کے دوران کبھی یہ مشاہدے میں نہیں آیا کہ کسی پنڈت تنظیم کا کوئی خود ساختہ عہدیدار کشمیر آکر اس کے آخری رسومات میںشامل ہوا ہو۔ یہ محض ایک چھوٹی سی مثال ہے ، ان کیلئے چشم کشا جو کشمیرکی سرزمین کو تقسیم کرکے کشمیر کومذہبی جنونیت کی نذر کرکے اُس جنون اور فرقہ پرستی کے ایجنڈا کو تقویت پہنچانا چاہتے ہیں جس کا مشاہدہ ملک کے کچھ حصوں میں آئے روز کیاجارہاہے۔
کشمیر کی مسلم آبادی باالخصوص پنڈت برادری کے اپنے ہمسایوں نے کب اپنے ان ہمسایوں کی واپسی کی خواہش کااظہار نہیںکیا، جب جب بھی وہ اپنے آبائی علاقوں میں آتے رہے تو ان کے مسلمان ہمسایے انہیںگلے لگاتے رہے ۔ ان کے مندروں کی دیکھ ریکھ کو یقینی بنایا، لیکن پنڈتوں کے کچھ خودساختہ لیڈر مسلسل یہ پروپیگنڈہ کررہے ہیںاور کشمیریوں کی کردارکشی کرکے انہیں بُنیاد پرست ، ریڈیکل اسلام کے علمبردار وغیرہ کا ٹائٹل عطاکرنے یہاں تک کہ ان کے کچھ خودساختہ ابن الوقت کچھ مخصوص فکر کی ٹیلی ویژن چینلوں پر کشمیر مخالف تجزیوں میںبڑھ چڑھ کر اپنے کشمیر دُشمن نظریات کو یہ کہکر زبان دیتے رہے ہیں کہ جموں کو کشمیر سے کاٹ کر جموں پر مشتمل الگ ریاست کی تشکیل عمل میںلائی جائے۔
اور بھی کئی ایک معاملات ہیںجو پنڈت برادری کے کچھ خود ساختہ لیڈر ان اور چند نفری تنظیمیں ان معاملات کو خلط ملط کرکے پیش کررہی ہیں۔ ان کا یہ طریقہ کار ملازمانہ ہے یا کسی اپنے آقا کی چاہت کی تکمیل، لیکن مجموعی نقصان پنڈت برادری کو ہورہا ہے اور دُکھ انہیں جھیلنا پڑرہے ہیں۔ پوری سنجیدگی کے ساتھ توجہ باوقار واپسی اور بازآبادکاری کی طر ف ہونی چاہئے لیکن خودساختہ بعض لیڈران اپنے مخصوص اور حقیر مفادات کی تکمیل کی خاطر اس اہم بلکہ بُنیادی اشو کو اُلجھا رہے ہیں اور انتشار پھیلا رہے ہیں۔
یہ تلخ سچ ہے کہ کانگریس اور بی جے پی دونوں نے اپنے اپنے دور اقتدار کے دوران پنڈتوں کی واپسی اور بحالی کیلئے صرف بلند بانگ دعویٰ کئے لیکن عملی طور سے کچھ بھی نہیں کیا۔ پنڈت آبادی بحیثیت مجموعی اپنے گھروں سے دور کسمپرسی کی حالت میں زندگی گذار رہی ہے اس میں دو رائے نہیں لیکن حکومت کا اپروچ انہیں کچھ ماہانہ ریلیف مہیا کرنے کی پالیسی تک سکڑ کررہ چکاہے۔ اس ماہانہ ریلیف میںکچھ اضافہ کرنے کیلئے کچھ تنظیموں اور مفاد پرستوں کو میدان میں جھونک کر ان سے مطالبات کروائے جارہے ہیں ، یہ طریقہ کار پنڈتوں کے وقار اور عزت نفس کو مسلسل ٹھیس پہنچانے کا ایک شرمناک عمل ہے۔
جموں میں منعقدہ جس اجلاس کا حوالہ دیاجارہاہے اس میں شریک دہلی سے آئے ایک لیڈر نما شخصیت نے پنڈت برادری کو درپیش کچھ معاملات کی نشاندہی کی جس کی سراہنا کی جانی چاہئے لیکن اپنی تقریر کے دوران انہوںنے شنکر آچاریہ اور ہاری پربت کا حوالہ دے کر دعویٰ کیا کہ ان کے نام تبدیل کرنے کی سازش کی جارہی ہے جس کو پنڈت سماج اجازت نہیں دے سکتا اور یہ بھی دعویٰ کیا کہ یہ دونوں مقامات ہزاروں سال پہلے سے کشمیر میں موجود ہیں اور یہ بیہودہ سوال بھی کیا کہ کیا کشمیر کے مسلمان اپنے پروجوں سے وابستگی کے منکر ہوسکتے ہیں۔
شنکر آچاریہ اور ہاری پربت کشمیرمیںدو واحد مخصوص اورمشترکہ علامتیں نہیں بلکہ اور بھی کئی ہیں۔ شنکر آچاریہ کو تخت سلیمان اور ہاری پربت کو کوہ ِماران کے نام سے بھی منسوب کیاجاتا ہے اور جانا جاتا ہے۔ یہ مشترکہ نام اب صدیوں سے چلے آرہے ہیں اور آج تک کشمیری سماج کے کسی ایک بھی حصے نے ناموں کو لے کر اعتراض نہیں کیا۔
بہرحال یہ ایک الگ معاملہ ہے جس کو ایک مخصوص فکر کی جماعت نے ’پتر حسد‘ کے جذبے کے تحت اور کردارکشی کی نیت سے الیکشن اشوبنا یا تاکہ ملکی سطح پر عوام کواس حوالہ سے بھی گمراہ کیاجاسکے۔ اصل مدعا خود پنڈتوں اور اگر کوئی ان کے نام پر قیادت کا دعویدار ہے لیکن اپنے سماج کے حوالہ سے مخلص، دیانتدار اور جذبہ ایثار سے سرشار ہے کیلئے باعزت واپسی اور با زآباد کاری کے طور طریقے کے حوالہ سے کسی قابل عمل روڈ میپ کی ترتیب کا ہے، ایسے کسی قابل عمل روڈمیپ جو آپسی رواداری اور فرقہ وارانہ بھائی چارے اور یکجہتی کے فروغ اور تحفظ کی بھی ضمانت فراہم کرتا ہو، کوترتیب دینے کیلئے مقامی آبادی باالخصوص ہمسایوں کا اہم بلکہ کلیدی کردارہے، کا تعاون اور اشتراک ناگزیر ہے۔