سرینگر/۱۴مارچ
جموں کشمیر پریس کور (جے کے پی سی) نے میڈیا کے ایک حصے کی ان رپورٹوں کی سختی سے تردید کی ہے جس میں پریس کونسل آف انڈیا (پی سی آئی) کی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ حکومت وادی میں پریس کی آزادی کو دبا رہی ہے۔
جے کے پی سی نے پرس کونسل آف انڈیا کے چیئر مین سے اس رپورٹ کو واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے ۔
جے کے پی سی نے پی سی آئی کی رپورٹ کو نہ صرف غلط قرار دیا بلکہ کہا ہے کہ ا س سے نامور پبلشرز اور ایڈیٹروں کو بھی نقصان پہنچایا۔
جے کے پی سی نے ایک بیان میں کہا کہ پی سی آئی کی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی (ایف ایف سی) جس میں پرکاش دوبے، سمن گپتا، اور گربیر سنگھ شامل ہیں، نے گزشتہ سال اکتوبر میں وادی کا دورہ کیا اور پریس کور کے اراکین نے ایف ایف سی پینل سے ملاقات کی۔
بیان میں کہا گیا ہے’’ جے کے پی سی کے اراکین رپورٹ کو پڑھ کر شدید صدمے، تکلیف، غمگین اور پریشان ہیں، جس سے پتہ چلتا ہے کہ ایف ایف سی رپورٹ نہ صرف حقائق کے لحاظ سے غلط اور ہتک آمیز ہے بلکہ یہ کشمیر کے اخبارات کے ایڈیٹروں اور پبلشروں کی ساکھ کو زک پہنچانے کی نیت سے لکھی گئی ہے۔
جے کے پی سی نے بیان میں مزید کہا ہے’’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پی سی آئی کی کمیٹی نے رپورٹ صرف ایڈیٹرز اور اخبارات کو بدنام کرنے ‘ سنسنی پیدا کرنے کیلئے ان کے بیان اور سچائی کو مدنظر رکھے بغیر لکھی ہے ۔ نامور ایڈیٹرز کی طرف سے بتائی گئی سچائی کو کمیٹی نے آسانی سے رپورٹ سے مٹا دیا ہے۔ آزادانہ اور منصفانہ تحقیقات کے ہر قائم کردہ اصول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اور اس طرح کی تحقیقات کے رہنما خطوط اور اخلاقیات کی مکمل نفی کرتے ہوئے کمیٹی نے ایڈیٹرز، پبلشرز اور صحافیوں کے ورڑن کو شامل کیے بغیر اپنی رپورٹ مرتب کی‘‘۔
جے کے پی سی نے بیان میں کہا ’’ہم نے ہمیشہ پریس کی آزادی کی وکالت کی ہے۔ آرٹیکل ۳۷۰ کی منسوخی کے بعد وادی کشمیر میں کام کرنے والے صحافیوں کی صورتحال میں کافی بہتری آئی ہے۔ درحقیقت وادی کشمیر میں میڈیا بڑھ رہا ہے اور ۲۰۱۹ کے بعد کئی نئی اشاعتوںکا آغاز کیا گیا ہے۔ میٹنگ کے دوران سرکردہ پبلشرز نے کمیٹی کو اس سے آگاہ کیا لیکن رپورٹوں میں ان حقائق کو آسانی سے دبا دیا ہے۔ درحقیقت، ایسا لگتا ہے کہ کمیٹی کشمیر میں مقیم ایڈیٹرز کی شبیہ کو خراب کرنے کیلئے ایک متعصبانہ ذہنیت کے ساتھ آئی تھی‘‘۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ رپورٹ کا پورا لب و لہجہ اور جملہ بازی گمراہ کن ہے اور کشمیر کے اخبارات کے بارے میں پہلے سے طے شدہ مہلک غلط بیانیوں سے بھری ہوئی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ صرف وادی کشمیر میں ۱۰۰ کے قریب روزانہ اخبارات اور۴۸ ہفتہ وار اخبارات ہیں۔ حکومت یا اس کے نمائندوں نے کبھی بھی نیوز روم کے کام میں مداخلت نہیں کی۔ لفظ ’چوکڈ‘ کا استعمال اخبارات کے لیے انتہائی قابل اعتراض اور ہتک آمیز ہے کیونکہ وہ پوری آزادی کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔
جے کے پی سی کے مطابق’حکومتی کرب‘ کا حوالہ جان بوجھ کر ہمیں بدنام کرنے اور سچائی کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہے۔ رپورٹ کا سارا ڈھانچہ اخبارات کے خلاف غلط تاثر اور تعصب کا ماحول پیدا کرنا ہے۔ ہم نے کمیٹی کے ساتھ اپنی میٹنگ میں پہلے ہی واضح کر دیا تھا کہ پولیس کی طرف سے کسی بھی باوقار صحافی کو ہراساں نہیں کیا گیا اور نہ ہی اسے طلب کیا گیا ہے لیکن ایک بار پھر اس حقیقت کو بھی کمیٹی کے ارکان نے دفن کر دیا ہے۔‘‘
بیان کے مطابق ’’ہم اگست۲۰۱۹ سے’پولیس کی طرف سے دھمکی‘ جیسی اصطلاحات پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔
جے کے پی سی یہ واضح کرنا چاہتی ہے کہ پی سی آئی کی مقرر کردہ کمیٹی کو صحافیوں کی آڑ میں کام کرنے والے بعض مفاد پرستوں کی طرف سے گمراہ کیا گیا ہے، پوری رپورٹ صریح طور پر بہتان پر مبنی، ذلت آمیز اور محنتی صحافیوں اور ایڈیٹرز کو نشانہ بنانے والی ظالمانہ ہے۔
اس رپورٹ کی وجہ سے ہمیں اپنی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے ۔ ہم پی سی آئی کے معزز چیئرمین سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ رپورٹ کو مکمل طور پر واپس لے لیں اور اسے دوبارہ شائع کرنے سے پہلے ہمارے ورڑن کو شامل کریں۔