لگتا ہے کہ… کہ تاریخ خود کو دہرا رہی ہے… بدلے ناموں اور چہروں کے ساتھ دہرا رہی ہے… یقینا دہرا رہی ہے… یہ کچھ ایک سال پہلے ہی کی بات ہے جب پی ڈی پی سے لیڈروں اور کارکنوں کے انخلاء کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں تھی… انخلاء اتنے بڑے پیمانے پر ہوا کہ…کہ ہمیں لگا کہ کہیں میڈم جی… میڈم محبوبہ جی خود بھی پی ڈی پی چھوڑ کر نہ چلی جائیں ۔اور آج کچھ ایک برسوں بعد ایک بار پھر ایسا ہی ہو رہا ہے… پی ڈی پی کے ساتھ نہیں ہو رہا ہے… لیکن پی ڈی پی میں انخلاء کے محرک بننے والے بخاری صاحب… الطاف بخاری صاحب کی اپنی پارٹی کے ساتھ ہو رہا ہے… اس جماعت سے بھی لوگ اور لیڈر باہر آ رہے ہیں… وہ لوگ اور لیڈر باہر آ رہے ہیں جنہوں نے اس پارٹی کو اپنے ہاتھوں سے بنوایا تھا … لیکن کیا کیجئے گا کہ… کہ سیاست کچھ چیز ہی ایسی ہے… کمینی چیز کہ اس میں یہ سب کچھ ہونا معمول ہے… اور اس لئے ہے کہ وہ زمانہ گیا جب نظریاتی وابستگی کسی جماعت میں شمولیت کی وجہ اور بنیاد ہوا کرتی تھی یا نظر یات میں اختلافات کی وجہ سے پارٹی چھوڑدی جاتی تھی… اب ایسا نہیں ہو تا ہے… بالکل بھی نہیں ہو تا ہے… اب کوئی سیاستدان کسی پارٹی میں اتنی ہی دیر ٹکتا ہے جب تک اس کے ذاتی مفادات کو تحفظ ملے … جس دن اور لمحہ یہ ذاتی مفادات خطرے میں پڑ جاتے ہیں… لوگ پارٹی چھوڑ جا تے ہیں… اپنی پارٹی میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے… اس پارٹی کو لوگ نظر یاتی بنیاد خیر باد نہیں کہہ رہے ہیں… بالکل بھی نہیں کہہ رہے ہیں… بلکہ جو کچھ سوچ کر یہ لوگ اس پارٹی میں شامل ہو ئے تھے… جو بڑے بڑے خواب انہوں نے دیکھے تھے یا انہیں دکھائے گئے تھے… یہ خواب کہ دہلی کی آشیر واد سے اپنی پارٹی کشمیر کی روایتی سیاسی جماعتوں کا متبادل ثابت ہو گی…یہ پارٹی پی ڈی پی اور این سی کی جگہ لے گی… جب ایسا ویسا کچھ ہوتا نظر نہیں آرہا ہے … جب حالیہ لوک سبھا انتخابات میں لوگوں نے اس جماعت کو آئینہ دکھایا… جب اس کے امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہو ئیں تو… تو اس پارٹی میں زلزلہ آگیا …جس سے اس کی درو دیواریں ہلنے لگیں اور…اور لوگ خود کو بچانے کیلئے بھاگنا شروع ہو گئے… وہ دن اور آج کا دن بھاگنے کا سلسلہ یونہی جاری ہے ۔ہے نا؟