اتوار, جون 8, 2025
  • ePaper
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
No Result
View All Result
Home اداریہ

جموںوکشمیر الیکشن کا بے صبری سے منتظر

شفافیت اور غیر جانبداری کی جانب نگاہیں مرتکز 

Nida-i-Mashriq by Nida-i-Mashriq
2024-08-08
in اداریہ
A A
آگ سے متاثرین کی امداد
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail

متعلقہ

عید الاضحی :آج کے دن بھی کچھ لوگ خوشیوں سے محروم ہیں!

ماحولیات کا عالمی دن‘کشمیر اور پلاسٹک کا استعمال

جموںوکشمیرمیں اسمبلی الیکشن کے متوقع انعقاد نے سیاسی حلقوں میں ایک نئی حرارت دوڑ ادی ہے، جو کردار کل تک گوشہ نشین تھے الیکشن کے متوقع انعقاد کی خبر نے انہیں اپنے بلوں سے باہر آنے کی تحریک دی، لوگ ایک پارٹی سے نکل کر دوسری پارٹی میں شمولیت اختیار کرتے جارہے ہیں، یہ سلسلہ جاری ہے، فوٹو سیشن گلے میںپھولوں کی مالائیں پہنائے جانے کی نمائش کے ساتھ ہی منعقد ہورہے ہیں، ہر نئے کی آمد کے ساتھ ہر پارٹی کی قیادت اسی دعویٰ کے ساتھ بار بار سامنے آرہی ہے کہ ان کے پارٹی میں آنے اور شرکت کرنے سے پارٹی مضبوط ہوئی ہے اور لوگوں کے ساتھ رابطے بھی مستحکم ہوتے جارہے ہیں۔
سیاسی کرداروں کا یہ آنا جانا کوئی نئی بات نہیں بلکہ اس کا تعلق چڑھتے سورج کی پوجا سے ہی عموماً منسوب کیا جارہاہے۔ البتہ سنجیدہ حلقے ایسے معاملات کے حوالہ سے اپنے اس انداز فکر میں سنجیدہ ہیں کہ جو کردار اپنی پہلی یا دوسری پارٹی کے ساتھ وابستگی کے حوالہ سے نہ تسلسل برقرار رکھ پائے، نہ پارٹی کے تئیں کسی حوالہ سے عہد بند رہے اور نہ ہی وفاداری کے کسی عنصرکی پاسداری کرپائے وہ کسی تیسری پارٹی کا رکن بن کر اُس نئی پارٹی کے تئیں اپنی کونسی وفاداری یا عہد بندی نبھا سکے۔ بہرحال سیاسی کرداروں کا یہی خاصہ ہے،لیکن یہ بات بغیر کسی مصلحت کے کہی جاسکتی ہے کہ ایسے کرداروں کی نیت اور ذہنیت دونوں سوداگرانہ خصلت سے ہی عبارت ہوتی ہے ، وہ عوام کے تئیں مخلص نہیں البتہ عوام کے تئیں مخلصی کا چوغہ پہننے کی نمائش ضرور کررہے ہیں۔
الیکشن کا انعقاد اور اس میں لوگوں کی بحیثیت رائے دہندگان کے شرکت نہ صرف جمہوری ہے بلکہ ایک آئینی ذمہ داری بھی ہے۔ اگر چہ کچھ حلقے اس حوالہ سے مطمئن نہیں اور وہ مختلف کمزوریوں، خامیوں اور کوتائیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان میں اصلاحات چاہتے ہیں، اس تعلق سے ان کی خواہش یہ بھی ہے کہ عوامی نمائندگان سے متعلق ایکٹ میں مناسب ترامیم کرکے اس عمل کو جمہوری مزاج ، جمہوری تقاضوں باالخصوص رائے دہندگان کے احساسات، جذبات اور خواہشات سے ہم آہنگ بنایا جانا چاہئے لیکن جن کے ہاتھ میں فیصلہ سازی کے اختیارات ہیں وہ اس کے برعکس رائے رکھتے ہیں اور ایسی ترامیم یا تجدیدات کو غیر ضروری قرار دے کر مسترد کررہے ہیں۔
ان دونوں خیالوں کے درمیان اس تعلق سے یہ جنگ کب تک جاری رہیگی کچھ قطعیت کے ساتھ نہیں کہاجاسکتا ہے البتہ یہ جنگ سالہاسال سے جاری ہے، جس میں اب الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی ا عتباریت، طریقہ کار اور شفافیت کے تعلق سے بھی کچھ سوالات خدشات کی صورت میںسامنے آرہے ہیں بلکہ کچھ لوگ توا س حد تک دعویٰ کررہے ہیں کہ وہ ثابت کرسکتے ہیں کہ ووٹنگ مشینوں کو ایک مخصوص سمت عطاکرکے مطلوبہ نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ لیکن چنائو کمیشن ایسے کسی بھی دعویٰ کو یہ کہکر مسترد کرکے پروپیگنڈا قرار دے رہا ہے کہ یہ ادارہ کو بدنام کرنے کی ایک کوشش ہے ۔
بہرحال یہ جنگ قومی سطح پر جاری ہے ۔ بات جموںوکشمیرکے حوالہ سے فی الوقت چرچہ میںیہ ہے کہ چنائو کمیشن کا اعلیٰ وفد یوٹی کے دورے پرآرہا ہے، سرینگر اور جموں میںوفد نہ صرف سیاسی پارٹیوں کے وفود سے چنائوعمل کے تعلق سے ان کی معروضات ، مشاہدات ،تجاویز اور دیگر امورات کے حوالہ سے معاملات کی جانکاری حاصل کرے گا بلکہ لااینڈآرڈر کی صورتحال اور الیکشن کی تیاریوں اور انعقاد کے تعلق سے ایڈمنسٹریشن کی تیاریوں اور انتظامات کے بارے میں بھی جانکاری حاصل کرے گا۔ اس حوالہ سے سابق وزیراعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے سرپرست اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کا ایک تازہ ترین بیان بھی سامنے آیا ہے جس میں وہ الیکشن کمیشن کو یہ مشورہ دیتے نظرآرہے ہیں کہ جو غلطیاں ان سے حال ہی میں سرزد ہوئی ہیں ان کااعادہ جموںوکشمیر میں نہیں ہونا چاہئے۔ڈاکٹر فاروق عبداللہ کا بیان ہے کہ’’ الیکشن کمیشن کے خلاف بہت انگلیاں اُٹھائی جارہی ہیں لیکن یہ اُس کا جواب نہیں دے رہے ہیں۔ میںانہیں ہوشیار کرنا چاہتا ہوں وہ ایسی غلطیاں نہ کریں جس سے یہاں بچے کھچے امن سے بھی ہاتھ دھونا پڑے‘‘ ۔
ڈاکٹر فاروق نے الیکشن کمیشن کی جانب اُٹھتی رہی انگلیوں کی وضاحت تو نہیں کی ہے البتہ الیکشن کمیشن کے بارے میں عوامی حلقوں میں جو عمومی تاثر پایا جارہا ہے غالباً فاروق عبداللہ نے اُسی کو ذہن میں رکھ کر اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔لیکن یہ بھی تاریخی سچ ہے کہ جموں وکشمیر باالخصوص کشمیرکے تعلق سے الیکشن کمیشن کا ماضی کاریکارڈ دودھ سے دھلا نہیں ، اس میںشفافیت کا کوئی عنصر شامل حال نہیں رہا بلکہ کم وبیش ہر اُس الیکشن ماسوائے ۱۹۷۷ء کے الیکشن کو چھوڑ کر جو جموںوکشمیر میںکرائے گئے ہیں الیکشن کمیشن کے رول کو گہن زدہ تصور کیاجاتارہا ہے۔
حالیہ پارلیمانی الیکشن کے نتائج کے بعد ووٹوں کے شرح تناسب ، ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد اور بعدمیںا ن کا تجزیہ کرنے کے بعد ملکی سطح کے کچھ سیاسی حلقوں کی جانب سے اس سارے عمل کو چیلنج کیا جارہاہے جبکہ ان تجزیاتی رپورٹوں یا دعوئوں کی روشنی میں الیکشن کمیشن کی طرف انگلیاں اُٹھائی جارہی ہیں۔ لیکن ان سے قطع نظر جموںوکشمیر بہت مشکل سے سمبل رہا ہے لوگ قیام امن کی خواہش کی خاطر اپنے کئی ایک معاملات اور مسائل کو حاشیہ پر بھی رکھنے کیلئے آمادہ ہیں، وہ کوئی بات یا قدم ایسا اُٹھانے کیلئے تیار نہیں جو فضاکو مکدر بنانے کا باعث بن سکے۔ اس تناظرمیں الیکشن کمیشن کے سربراہ اوراس کے دو ساتھیوں پر خاص ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نہ صرف دیانتداری، فرض شناسی ، شفافیت اور مکمل غیر جانبداری سے الیکشن عمل کے تعلق سے اپنا کردار اداکریں بلکہ ہر اُس شکایت اور دھاندلی چاہئے کسی بھی سیاسی یا غیر سیاسی حلقے کی جانب سے ہو یا کسی تعلق سے ایڈمنسٹریشن کی کسی اکائی کی طرف سے ’’مداخلت بے جا‘‘ کی شکل وصورت میں ہوکو فوری طور سے ایڈریس کرکے آئین کے تئیں اپنی وفاداری اور پاسداری کا جو حلف اُٹھایا ہے اس کے احترام میںسربسجود رہے۔
کشمیر میں ماضی میںالیکشن اندھی سیاسی اور حکومتی مجبوریوں اور مصلحتوں کے پیش نظر جانبدارانہ، دھاندلیوں سے عبارت اور یکطرفہ رہے ہیں اس بارے میںکوئی ابہام نہیں ہے بلکہ الیکشن کے حوالہ سے سارا ڈیٹا اور کیا کچھ ہوا، کون جیتا، کون ہارا، کتنے الیکشن لڑے بغیر کامیاب قرار دیئے جاتے رہے ، کتنے لوگوں کے نامزدگی کاغذات سیاسی مصلحتوں کے پیش نظرمسترد کئے جاتے رہے یہاں تک کہ نتائج تک کو الٹ پلٹ کرکے رکھا جاتا رہا وہ کشمیرکی الیکشن اور سیاسی منظرنامے کا ان مٹ حصہ ہے اور کوئی اس تاریخی حقیقت کو جھٹلا نہیں سکتا البتہ اس کے جو نتائج بعد میں عوامی ردعمل کی صورت وشکل میں سامنے آئے وہ زائد از تین دہائیوں تک ملک کے وسیع تر مفادات کو بلیڈ کرتے رہے وہ سب کچھ آج کی تاریخ میں محتاج وضاحت نہیں۔
ShareTweetSendShareSend
Previous Post

الفاظ کا کھیل

Next Post

سابق ممبر پارلیمنٹ شکیب کی ملکی حالات پر خاموشی؛ شائق کی تنقید

Nida-i-Mashriq

Nida-i-Mashriq

Related Posts

آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

عید الاضحی :آج کے دن بھی کچھ لوگ خوشیوں سے محروم ہیں!

2025-06-07
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

ماحولیات کا عالمی دن‘کشمیر اور پلاسٹک کا استعمال

2025-06-05
اداریہ

میلہ کھیر بھوانی میں کشمیری پنڈتوں کی شرکت اور گھرواپسی کی خواہش

2025-06-04
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

۶ جون :جب جموں کشمیر میں ایک نئے دور کا آغاز ہو گا 

2025-06-03
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

عید الاضحی کی آمد آمد لیکن کشمیر کے بازاروں میں گہما گہمی نہیں!

2025-06-01
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

سرینگر اور دوسرے اضلاع میں قلت ِآب کا بڑھتا مسئلہ

2025-05-31
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

کشمیر میںسیاحت کی بحالی کی کوششیں:

2025-05-29
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

وزیر اعظم مودی کا عام پاکستانیوں سے خطاب!

2025-05-28
Next Post
شکیب، نجم الحسن سے بند کیمرے میں ملاقات کے بعد جنوبی افریقہ جانے کو تیار

سابق ممبر پارلیمنٹ شکیب کی ملکی حالات پر خاموشی؛ شائق کی تنقید

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

  • ePaper

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.