الفاظ سے کھیلنے کا ہنر ہر کسی کے پا س نہیں ہو تا ہے … نہیں ہو سکتا ہے… اپنے اٹل جی اس کے استاد تھے‘ ماہر تھے… اور جب بھی وہ کشمیر آتے تھے تو… تو الفاظ سے ایسے کھیلتے تھے کہ سننے والا دھنگ رہ جاتا … الفاظ کے اس جادوگرکے’کشمیریت ‘ انسانیت اور جمہوریت‘ جیسے بول آج بھی دہرائے جاتے ہیں…صرف دہرائے جاتے ہیں۔خیر اٹل جی تو اللہ دنیا سے چلے گئے… اور یہ بات اٹل ہے کہ ان جیسا الفاظ کے ساتھ کھیلنے والا اپنے بھارت دیش میں دوسرا کوئی نہیں ہے… بالکل بھی نہیں ہے… لیکن اتنا ضرور ہے کہ بہت سے لوگ کوشش ضرور کرتے ہیں… الفاظ سے کھیلنے کی کوشش اور … اور ان میں اپنے ایل جی … ایل جی منوج سنہا صاحب بھی ہیں… یہ بھی کبھی کبھی الفاظ سے کھیلنے کی کوشش کرتے ہیں… صرف کوشش !…ان جناب نے یہ کوشش اُس وقت بھی کی جب ان سے پوچھا کہ جموں کشمیر میں اسمبلی الیکشن کے بعد جب نئی حکومت وجود میں آجائیگی تو… تو اس کے پاس کتنے اختیارات ہوں گے ؟سنہا صاحب نے جواب میں کہا ’بہت اختیارات ہوں گے‘ … اب صاحب بہت اور ’سارے‘ میں تو زمین و آسمان کا فرق ہے کہ جمہوری طور منتخبہ ایک حکومت کے پاس بہت نہیں بلکہ وہ سارے اختیارات ہوتے ہیں جو اس کے پاس ہونے چاہئیں … لیکن… لیکن اپنے سنہا صاحب نے لفظ ’سارے‘ نہیں بہت’بہت‘ کا استعمال کرکے اس بات کو نہ چاہتے ہو ئے بھی تسلیم کیا کہ جموں کشمیر میں اسمبلی انتخابات کے بعد جو نئی حکومت بن جائیگی اس کے پاس سارے اختیارا ت نہیں ہوں گے… کچھ ایک اختیارات ہوں باقی سارے اپنے ایل جی صاحب کے پاس ہوں گے ۔ریاستی درجے کی بحالی کے بارے میں ایل جی صاحب کاکہنا تھا کہ ایک مناسب وقت پر یہ درجہ بھی بحال ہو جائیگا … لیکن اس مناسب وقت کو آنے میں کتنا وقت لگے گا کوئی نہیں جانتا ہے کہ…کہ پہلے ہی پانچ سال بیت گئے ہیں… لیکن اگر مزید پانچ سال بھی گزر جائیں گے تو… تو کم از کم کوئی سنہا صاحب کا گریبان نہیں پکڑ سکتا ہے کہ یہ جناب اس وقت بھی کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے مناسب وقت کی بات کی تھی اور… اور ابھی مناسب وقت نہیں آیا ہے… بالکل بھی نہیں آیا ہے ۔اور یوں الفاظ کا یہ کھیل یا الفاظ سے کھیلنے کی کوشش اسی طرح جاری رہے گی۔ ہے نا؟