کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ تول کے بول… بولنے سے پہلے الفاظ کو تولا جائے کہ… کہ زبان سے نکلنے والے الفاظ کبھی کبھی تیز سے بھی زیادہ نقصان پہنچا سکتے ہیں… خود کو بھی اور دوسروں کو بھی ۔اب دیکھئے نا بنگلہ دیش کی خاتون وزیر اعظم… معاف کیجئے سابق وزیر اعظم‘ شیخ حسینہ واجد کو کیا خبر تھی کہ ان کے منہ سے نکلنے والا ایک لفظ… جی ہاں ایک لفظ ان کی بادشاہت ‘ ملک پر ۱۶ برسوں سے جاری ان کے اقتدار اور راج تاج کو ختم ہی نہیں کر دے گا بلکہ انہیں ملک چھوڑنا پڑے گا … خاتون نے اقتدار کے نشے میں یہ ایک لفظ ادا کیا … انہوں نے بنگلہ دیش کی سڑکوں پر احتجاج کررہے نوجوانوں کو’رضا کار‘ قرار دیا … بس ان کے اس لفظ کے منہ سے نکلنے کی دیر تھی کہ ان کی تانا شاہی کی الٹی گنتی شروع ہو گئی کہ… کہ ان کے اس ایک لفظ نے بنگلہ دیشیوں کو غصہ دلا یا … جس کی وجہ سے وہ لوگ بھی طلبا کے اس احتجاج سے جڑ گئے جو پہلے اس کا حصہ نہیں تھے بلکہ دور سے ہی تماشا دیکھ رہے تھے …بنگلہ دشیوں کیلئے’رضاکار‘ کا لفظ کسی بڑی گالی سے کم نہیں ہے کہ ملک میں ’رضاکار ‘ان لوگوں کو کہاجاتا ہے جنہوں نے ۱۹۷۱ میں اس ملک کی آزادی کی لڑائی میں پاکستانی فوج کی مدد کی تھی… دوسرے الفاظ میں ’رضاکار‘ کا مطلب غدار ہے… بنگلہ دیشیوں کے نزدیک یقینا ’رضاکار‘ کا مطلب غدار ہی ہے اور… اور جب خاتون نے بنگلہ دیشی طلبا کو غدار کہا تو… تو ان کیخلاف عام لوگوں کا سیلاب ڈھاکہ کی سڑکوں پر امڈ آیا اور کہنے والوں کاکہنا ہے کہ جس خاتون نے مجموعی طور پر اس ملک پر ۲۱ سال حکمرانی کی‘بادشاہت کی … اسے ملک چھوڑنے کیلئے صرف ۴۵ منٹ دئے گئے … صرف ۴۵ منٹ!ہم یہ نہیں کہہ رہے ہیں اور بالکل بھی نہیں کہہ رہے ہیں کہ… کہ اگر خاتون ’رضاکار‘ لفظ استعمال نہیں کرتیں تو وہ آج بھی بنگلہ دیش پر حکمرانی کررہی ہوتیں… ہم ایسا بالکل بھی نہیں کہتے ہیں… بلکہ صاحب ہمارے کہنے کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ بولنے سے پہلے اپنے لفاظ کو تولنا ضروری ہے کہ… کہ کبھی کبھی دشمنوں سے بھی زیادہ نقصان آپ کے منہ سے نکلنے والے الفاظ آپ کو پہنچا سکتے ہیں … اور سو فیصد پہنچا سکتے ہیں ۔ ہے نا؟