چنائو کمیشن اگلے چند روز میں جموںوکشمیر کے دورے پر آرہا ہے ۔ دورے کا مقصد اسمبلی کے مجوزہ انتخابات کے تعلق سے تیاریوں کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ امن وقانون کی صورتحال، سکیورٹی سیٹ اپ ، ایڈمنسٹریشن کی طرف سے بریفنگ حاصل کرنے وغیرہ متعلقہ امورات پر جانکاری کے حصول سے ہے۔ حاشیہ پر الیکشن کے حوالہ سے متعلقہ تیاریوں اور لوازمات وغیرہ کی تکمیل کی سمت میں بھی سرگرمیاں جاری ہیں۔
اسی دوران ایک مرکزی وزیر‘جی کے ریڈی نے الیکشن کے انعقاد کے بارے میں دوٹوک الفاظ میں واضح کیا ہے کہ الیکشن ستمبرمیں ہوںگے اور جموںوکشمیر کے ووٹروں سے اپیل کی ہے کہ وہ حکمران جماعت بی جے پی کو امن ، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور ترقیاتی تسلسل کو یقینی بنانے کیلئے ووٹ دیں گے۔ لیکن کچھ ایک حلقے وہ بھی ہیں جنہیں یہ یقین نہیں کہ الیکشن ہوں گے ، اس کیلئے وہ مختلف معاملات کی نشاندہی بھی کررہے ہیں۔ تاہم کشمیرنشین اور جموںنشین سیاسی جماعتوں کو اب یہ مکمل یقین ہورہا ہے کہ واقعی سپریم کورٹ کی طرف سے مقررہ ڈیڈ لائن کے مطا بق الیکشن ہوں گے جس الیکشن کے انعقاد کیلئے کم وبیش سبھی سیاسی جماعتیں… وہ بھی جو وقت وقت پر برسراقتدار آتی رہی ہیں اور وہ بھی جوا ب نئے بدلتے حالات میں کسی بھی قیمت اور کسی بھی حالت میں اپنے لئے اقتدار چاہتی ہیں۔
ان جماعتوں کی الیکشن کیلئے تڑپ دیکھنے اور محسوس کرنے سے تعلق رکھتی ہے۔ لوگوں کے سنجیدہ اور حساس حلقے ان کی اس تڑپ پر انگشت بدندان ہیں اور انہی اپنی آنکھوں پر ان کی یہ تڑپ اور اتاولاپن پر یقین نہیں ہورہا ہے۔ پھر خود سے ہی یہ حلقے یہ سوال بھی کررہے ہیں اور خود کو تسلی دے کر خاموشی اختیار کررہے ہیں کہ اقتدار کے حصول کے یہ متوالے برسراقتدار آنے کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں، کوئی بھی سودا قبول کرسکتے ہیں، جو ان کا اب تک کا زبانی نریٹو رہا ہے اور جس نریٹو کو بُنیاد بناکر وہ فی الوقت سیاست کرکے اپنے اپنے سیاسی وجود کو کچھ سہارا دینے کی کوشش کررہے ہیں حصول اقتدار کی منزل قریب پاتے ہی وہ اپنی سہارا کی ان بیساکھیوں سے خود کو آزاد کرکے چھٹکارا حاصل کریں گے۔
اگر چہ کم وبیش سبھی پارٹیوں کی جانب سے الیکشن سے قبل ریاستی درجہ کی بحالی کا مطالبہ پیش کیا جارہا ہے اور لیفٹیننٹ گورنر کو حالیہ ایام میں مرکزی سرکار کی جانب سے تفویض اختیار کو واپس کرنے کا بھی مطالبہ کررہے ہیں لیکن صورتحال اور معاملات پر گہری نگاہ رکھنے والے اس بات پر متفق ہیں کہ مرکزی سرکار ان دو میں سے کسی ایک بھی مانگ کو تسلیم کرنے کا راستہ اختیار کرنے کیلئے تیار نہیں کیونکہ مرکزی سرکار اپنے منشا کو واضح کرچکی ہے کہ یوٹی ہے،یوٹی رہنے دو اور اختیارات اپنے ہاتھ میںر ہیں۔ اسمبلی الیکشن کا انعقاد مختلف آواز وں کو خاموش کرانے، جبکہ ایسا کرنا اب کسی حد تک مرکز کی سیاسی حکمت عملی یا تقاضہ بن چکی ہے۔
لیکن عوام کیا رائے رکھتے ہیں؟ پہلے ابتدائی ایام میں لوگ بھی الیکشن کے انعقاد کے حوالہ سے بہت پُر جوش تھے، بڑھ چڑھ کر اور بلند آوازمیں الیکشن کے انعقاد کا مطالبہ بھی کررہے تھے اور وکالت بھی، لیکن اچانک لوگوں کا جوش ٹھنڈا پڑ گیا، وہ تجسس ، وہ گرمجوشی ، وہ عہد بندی لوگوں میں اب مفقود نظرآرہی ہے۔ لوگوں کی اکثریت مجوزہ الیکشن کو الیکشن کے نام پر محض ایک رسم کی تعمیل تصورکررہے ہیں، ایک ایسا الیکشن جس میں ووٹر اپنے حق رائے دہی کا تو استعمال کرسکتے ہیں لیکن ان کے اُس ووٹ کو نہ کوئی اختیار حاصل ہوگا اور نہ اپنے مقدر کو سنوارنے اور اپنی ترقیاتی عمل کو یقینی بنانے کیلئے فیصلہ سازی کا کوئی اختیار۔ ۹۰ لوگ منتخب ہوکر اسمبلی میں جائیں گے، حلف اُٹھائیں گے، تقرریریں کرتے رہینگے، مہینہ بعد اپنی تنخواہیں، الائونس اور مراعات جیبوں میں ڈال کر اپنے اپنے راستوں پر چلتے جائینگے۔ لوگوں کی اکثریت اس بات پر بھی متفق ہے کہ مجوزہ اسمبلی اور تشکیل پانے والی حکومت کی حیثیت ’ربڑ مہر‘سے کچھ زیادہ نہیں ہوگی۔
یہی وہ ملتے جلتے احساسات ہیں جو لوگوں میں اُبھرتے جارہے ہیں اور جن احساسات جوسوالات اور چبھتے خدشات کی صورت میں گھر کرتے جارہے ہیں بحیثیت مجموعی الیکشن عمل سے مایوسی اور قدرے دوریوں کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ خدا کرے کہ یہ سارے سوالات، خدشات محض مفروضے ثابت ہوں لیکن فی الوقت منظرنامہ یہی ہے۔
اس اُبھر رہے منظرنامہ کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے جس کاتعلق مختلف نظریات اور عقائد کی سیاسی جماعتوں کے انداز فکر اور طرزعمل سے ہے۔ یہ جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ نظریں ملانے کیلئے تیار نہیں، ہاتھ ملانا تودور کی بات قدر مشترک معاملات پر ایک پلیٹ فورم پر جمع ہوکر کوئی ایک متفقہ نریٹو اور روڈ میپ وضع کرنے کیلئے بھی حرکت کرنے کیلئے تیار نہیں۔ ابھی چند روز قبل ان پارٹیوں نے جموںمیں اپوزیشن اجلاس طلب کرلیا تھا لیکن وہ بھی منعقد نہ ہوسکا۔ اجلاس کے اعلان کے محض چند ہی گھنٹوں کے اندرا ندر اس پروجیکٹ کے خاتمہ کا اعلان کیا گیا۔ اگر چہ جموںمیں کچھ اپوزیشن جماعتوں نے سڑک پر بیٹھ کر دھرنا دیا اور مختلف مطالبات کا اعادہ کیا لیکن کشمیر خاموش ہے۔
نیشنل کانفرنس اپنی بالادستی سے دست کش ہونے کیلئے تیار نہیں، محبوبہ اپنے والد مرحوم کے ناکام مشن اور وژن کے سحر سے خود کو چھٹکارا نہ دلانے پر بضد ہے، الطاف بخاری اور سجاد غنی لون روایتی اورخاندانی سیاست کے تعلق سے اپنے اختیار کردہ نریٹو سے دستبردار ہونے کیلئے تیار نہیں جبکہ ملکی سطح پر اپوزیشن اتحاد…انڈیا بلاک کی قیادت کررہی کانگریس کی جموںوکشمیر اکائی پہلے الیکشن چاہتی ہے پھر اس کے بعد اختیارات کا حصول۔ یعنی کانگریس لنگڑی اسمبلی اور ربڑھ مہر کی حیثیت کی حامل حکومت اور اقتدار۔
حیرت توا س بات کی ہے کہ اسی اپوزیشن بلاک کی اکائیوں کے طور پر نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی خود کو پیش کررہی ہیں اور بار بار اس بلاک کے تئیں اپنی ہمدردی اور وفاداری کی حلف برداری بھی کررہی ہیں جبکہ اپوزیشن اتحاد میں شامل کم وبیش سبھی اکائیاں جموں وکشمیر کے حوالہ سے خاموش ہیں۔ پارلیمنٹ کے اندر بھی اور پارلیمنٹ سے باہر بھی ان کی جموںوکشمیر کے تعلق سے زبان بندی ہے، ایسامحسوس ہورہا ہے کہ جیسے ان کی زبانوں پر کوئی فالج حملہ آور ہورہاہے۔
یہ سارا منظرنامہ لوگوں کو تمام تر صورتحال، معاملات اور امورات کے حوالہ سے ایک بار پھر گہرے مگر سنجیدگی کیسا تھ غوروفکر کا لمحہ عطاکررہا ہے۔ مسائل اور معاملات کی سنگینی ایک طرف اور لوگوں کی توقعات ایک طرف، منزل واضح ہو دانشمندی کا تقاضہ تو یہی ہے کہ حرکت سے قبل اس کی نشاندہی ہو۔
لیکن یہ بات بھی ملحوظ خاطر رکھنے کی ضرورت ہے کہ لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا واضح طور سے کہہ رہے ہیں کہ ’’منتخب حکومت کے پاس بہت سارے اختیارات ہوں گے کیونکہ آئین میں ہر ایک کردار کی وضاحت موجود ہے، ہر کوئی آئین کے مطابق کام کرے تو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ اختیارات کے دائرے میں رہیں تو سب کچھ ٹھیک ہوگا…… اس پس منظرمیں تصادم کا امکان کہاں ہے‘‘؟