شہر سرینگر، اس کے مضافات اور مختلف دیہی راستوں پر بدترین ٹریفک جام کے واقعات اب روز کا معمول بن چکا ہے۔ ٹریفک انتظامیہ یا تو اس صورتحال کے سامنے بے بس ہے یا اس کے فہم میں نہیں آرہا ہے کہ ٹریفک جا م اور پیداشدہ صورتحال سے کیسے نمٹا جاسکے۔ دونوں صورتوں میں مالی نقصان، ذہنی تھکاوٹ اور پریشانی کا سامنا نہ صرف پیدل راہگیروں کو ہے بلکہ ٹرانسپورٹ آپریٹروں اور نجی گاڑی سواروں کو ان سے کہیں زیادہ کرنا پڑرہاہے۔
ٹریفک مینجمنٹ کی خامیوں اور روایتی کمزوریوں کو ۷۵؍ سال گذرنے کے باوجود دور نہیں کیاجاسکا ہے۔وہی فرسودہ سوچ اور روایتی طریقہ کار اور دوسرے ناکام تجربوں کا قدم قدم پر اعادہ ٹریفک انتظامیہ کا لکیر کا فقیر کے مترادف طریقہ کار ہے۔
کشمیر کے تعلق سے بات کی جائے تو ٹریفک انتظامیہ سے کئی سرکاری ونیم سرکاری ادارے بلواسط یا بلاواسطہ وابستہ ہیں۔ٹریفک مینجمنٹ کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی بجائے سائن بورڈوں کی تنصیب اور اسٹریٹ لائٹس کو ہی ٹریفک جام کا حل تصور کیاجارہاہے۔ووٹ بینک کی سیاست اور سوچ ماضی کے سرکاروں کا اولین اور من پسند ایجنڈا رہاہے۔ جس سے مجبور ہوکر فٹ پاتھوں پر ناجائز قبضوں، دکانداروں کی طرف سے تجاوزات، ریڑہ بانوں کی من مانیاں روز مرہ معمول کا حصہ تھی لیکن ناجائز قبضوں اور تجاوزات کی یہ لعنت اس وقت اپنی بھر پور رفتار اور شان وشوکت کے ساتھ جاری ہے۔
اس حوالہ سے سرینگر میونسپل کونسل برا ہ راست ذمہ دار ہے ۔ معلوم نہیں کیوںوہ ریڈہ بانوں کے ساتھ ساتھ دکانداروں کو تجاوزات اور فٹ پاتھوں پر ناجائز قابضین کی حوصلہ افزائی کررہی ہے۔ اس حوالہ سے شہر اور مضافات کی مختلف سڑکوں کا منظرنامہ ناقابل تردید حقیقت ہے اور میونسپل کونسل کے منتظمین اس حقیقت کی تردید نہیں کرسکتے ہیں۔
جہاں تک ٹریفک محکمہ کے ٹریفک مینجمنٹ کے حوالہ سے موجود ہ طریقہ کار کا تعلق ہے وہ بے حد نرالا۔روایتی کراسنگس کو خاردار تار نصب کرکے بند کردیا گیا ہے لیکن اگلی ٹرن لینے کیلئے آدھ سے ایک کلومیٹر دور کا اضافی سفر کا عذاب مسلط کر دیاگیاہے۔اس طریقہ کار ، جو فرسودہ بھی ہے ، کو اختیار کرنے سے ہر ایک گاڑی کو روزانہ اوسط سو روپیہ کا اضافی بوجھ برداشت کرنا پڑرہاہے جبکہ اصل مسئلہ وہی ہے جہاں یہ پیدا ہوا ہے۔ اس طریقہ کار کے باوجود بدترین ٹریفک جام میںکوئی مثبت تبدیلی نہیں دیکھنے کو مل رہی ہے۔
اس میں دو رائے نہیں کہ ٹریفک جام کی کئی وجوہات ہیں۔ سڑکوں کی کشادگی وہی ہے جو ان کی تعمیر کے وقت تھی۔ آبادی بڑھ رہی ہے۔ نجی اور پرائیوٹ ٹرانسپورٹ میں روزبروز اضافہ ہورہاہے۔ تیز رفتاری اور لاپرواہی اور ناتجربہ کار ڈرائیونگ ایسے عنصر بھی ٹریفک جام میںاہم کرداراداکررہے ہیں۔ اس وباء اور تکلیف پر قابو پانے کیلئے دُنیا بھر میں جدید خطوط پر مینجمنٹ کا سہارا لیاگیاہے جو کامیاب ہیں ملکی سطح پر بھی بہتر ٹریفک مینجمنٹ کا سہارا لے کر ٹریفک جام کے معاملات پر قابو پالیاگیا ہے لیکن جموں وکشمیر میں جدید خطوط پر مبنی ٹریفک انتظامیہ معلوم نہیں کیوں قابل عمل نہیں سمجھ رہی ہے، برعکس اس کے فرسودہ طریقہ کار کا مقدس گائے تصور کرکے اختیار کرنے پر تکیہ کیا جارہاہے۔
کوئی جائز طریقے سے کاروبار کرے اور روزی روٹی کے حوالہ سے مصروف عمل رہے تو اس کا خیر مقدم ہی نہیں بلکہ ہر ممکن طریقے سے حوصلہ افزائی کرنی چاہئے لیکن اسی روزی روٹی کی آڑمیں سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر ناجائز قبضے اور تجاوزات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چلتا رہے اور متعلقہ ادارے آنکھ بند کرکے حوصلہ افزائی کرتے رہیں تو اس کا خمیازہ عام لوگوں کو بھگتنا پڑرہاہے۔
اس تعلق سے ٹریفک انتظامیہ اور سرینگر میونسپلٹی کو کوئی مشترکہ لائحہ عمل اور طریقہ کار وضع کرنا چاہئے۔ ان کیلئے مختلف علاقوں میں منڈیوں کے طرز پر بازار قائم کئے جاسکتے ہیں تاکہ خرید وفروخت کے حوالہ سے ایک منظم کلچر کی مضبوط بُنیاد ڈالی جاسکے۔ دکانداروں جو صورتحال کا ناجائز فائدہ اُٹھاکر اپنی اپنی توند میٹروں کے حساب سے سڑک کی طرف بڑھانے کی لت میں مبتلا ہیں کو ان تجاوزات سے اجتناب کرنے کی ہدایت دی جانی چاہئے لیکن خلاف وزری کی صورت میں اس سارے مال اور اشیاء کو ضبط کیا جانا چاہئے جو تجاوزات کے زمرے میں شمارکیاجاسکتا ہے۔ اس تعلق سے ذمہ داری متعلقہ میونسپل وارڈوں سے منتخبہ کونسلروں کی ذات پر ڈالی جائے جبکہ متعلقہ وارڈ آفیسروں کی بھی یہ ذمہ داری ہونی چاہئے کہ وہ اپنے اپنے وارڈوں میں ایسی کسی بھی تجاوزات کا سنجیدہ نوٹس لے کر تادیبی کارروائی کی سمت میں پہل کریں۔
بعض سڑکوں کی ناگفت بہ حالت بھی ٹریفک جام میں اپنا کرداراداکررہی ہے۔سڑکوں پر گہرے گڑھے موجود بھی ہوں تو آر اینڈ بی کے انجینئرصاحبان اس کی مرمت مہینوں تک ٹال دیتے ہیں۔یہ ناگفت بہ حالت ٹریفک حادثوں کا بھی موجب بن جاتی ہے۔
بحیثیت مجموعی صورتحال گھمبیر ہوتی جارہی ہے۔ اس گھمبیر صورتحال کا فوری حل تلاش کرنا اب ناگزیر بن رہاہے کیونکہ ٹریفک جام کے بدترین معاملات اب محض چند منٹوں تک محدود نہیں رہے ہیں بلکہ بسا اوقات گھنٹوں تک محیط ہوجاتے ہیں۔ کچھ صورتوں میں علیل بیمار بھی اس جام میں پھنس کررہ جاتے ہیں۔ یہ صورتحال ان کیلئے بے حد تکلیف دہ بن جاتی ہے۔ نہ آگے کی جانب بڑھنے کا کوئی راستہ ہے اور نہ پیچھے واپس مڑنے کی گنجائش ۔ اسی پر بس نہیں ڈرائیونگ نشستوں پر بیٹھے حضرات ۲۔ لین والی سڑک کو ۴؍لین والی سڑک میں تبدیل کرکے ٹریفک جام کو اور بھی ابتر بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسی وباء ہے جودن بہ دن بڑھتی جارہی ہے۔