سرینگر//(ویب ڈیسک)
دنیا کی جمہوریتوں میں انتخابات کا ایک سال، رائے دہندوں کی گہری عدم اطمینان کی نشاندہی کرتا ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے اے پی کی رپورٹ کے مطابق رواں برس کے انتخابات میں دنیا کی نصف آبادی ووٹ ڈالنے کے عمل سے گزر رہی ہے، ووٹروں کا موڈ خراب ہے۔
ہارورڈ کے پروفیسر سٹیون لیوِٹسکی کے ایک جائزے کے مطابق جنوبی کوریا سے لے کر ارجنٹائن تک اقتدار سے چمٹے افراد کو الیکشن کے ذریعے دخل کر دیا گیا۔ صرف لاطینی امریکہ میں، لیڈران اور ان کی پارٹیاں میکسیکو میں صدارتی انتخابات تک لگاتار ۲۰؍انتخابات ہار چکی ہیں۔
واشنگٹن ڈی سی میں کونسل آن فارن ریلیشنز کے ماہرین کا کہنا ہے کہ لوگ بہت زیادہ غیر مطمئن ہیں۔عدم اطمینان کی بہت سی وجوہات ہیں، سوشل میڈیا کا مسائل کو اجاگر کرنا، کورونا وائرس سے تکلیف دہ بحالی اور عالمگیریت سے پیدا معاشی اور ثقافتی تبدیلیو ںکا ردعمل شامل ہے۔
۲۴جمہوریتوں میں پیو کے حالیہ سروے میں، ۷۴فیصد کے خیال میں سیاستدانوں کو پرواہ نہیں کہ ان جیسے لوگ کیا سوچتے ہیں، اور۴۲ فیصد نے کہا کہ کوئی سیاسی جماعت ان کے نقطہ نظر کی نمائندگی نہیں کرتی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ منتخب رہنماؤں کے ساتھ عالمی غصے کے رجحان میں ایک قابل ذکروہ جگہیں جہاں رہنما اسٹیبلشمنٹ مخالف، پاپولسٹ طاقتور ہیں۔ وہاں نظام مخالف، پاپولسٹ شخصیات ماضی کے مقابلے زیادہ جیت رہی ہیں۔
ارجنٹائن میں، نومنتخب صدر جیویر میلی وہ ایک خود ساختہ’’انارکو کیپٹلسٹ‘‘ بنا ہوا ہے جسے مداح ’’پاگل آدمی‘‘ کا نام دیتے ہیں وہ ملک کے کمزور معاشی مسائل کے باوجود مقبول ہیں۔
واشنگٹن ڈی سی میں قائم تنظیم فریڈم ہاؤس، جو جمہوریت کو فروغ دیتی ہے، کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر جمہوری قدروں کو پرکھنے والا’’آزادی انڈیکس‘‘ مسلسل ۱۸ سالوں سے زوال کا شکار ہے۔ اس کی وجہ اس صدی کے آغاز سے کئی بحران ہیں۔،ان میں ۱۱ستمبر ۲۰۰۱‘امریکہ میں دہشت گردانہ حملے،۲۰۰۸ کی عالمی کساد بازاری اور کورونا وائرس کی وبا شامل ہیں۔