ہمیں یقین ہے کہ اب اُس پار والے کشمیری بھی خود پر فخر کررہے ہوں گے… انہیں بھی اب لگ رہا ہو گا کہ وہ بھی کسی کام کے ہیں کہ… کہ گزشتہ ۷۵ برسوں میں اُس پار والا کشمیر کسی کام کا تھا اور نہ یہ کسی کے کام آیا … لیکن اب … اب اسے ایک کام کی چیز بنانے کی باتیں ہو رہی ہیں اور… اور اللہ میاں کی قسم انہیں … اُس پار کے کشمیریوں کو ان باتوں کو سن کر خود پر فخر ہو رہا ہوگا… انہیں لگ رہا ہو گا کہ اب ان کے وجود کے بھی کوئی معنی ہیں اور… اور سو فیصد ہیں… وہ کیا ہے کہ … کہ ہم کشمیری توخود کو خاص سمجھ رہے تھے… خصوصی پوزیشن ختم ہونے کے بعد تو کچھ زیادہ ہی خاص اور خصوصی سمجھ رہے تھے … اور اس لئے سمجھ رہے تھے کہ… کہ اتنے بڑے ملک میں جہاں ایک سو ۴۰ کروڑ لوگ رہ رہے ہیں… جہاں اتنی اتنی بڑی ریاستیں ہیں… ایک ایک ریاست میں ۸۰/۸۰ لوک سبھا حلقے ہیں… وہاں حکمران جماعت کی قیادت اگر کسی کی بات کررہی ہے تو… تو ہماری کررہی ہے… کشمیر کی کررہی ہے … کشمیریوں کی کررہی ہے… کشمیر کے نام پر ووٹ مانگ رہی ہے‘ کشمیریوں کے نام پر ووٹ مانگ رہی ہے… یہ بات تو کسی کو بھی خاص ہونے کا احساس دلا سکتی ہے… اور اللہ میاں کی قسم ہمیں بھی احساس ہو رہا ہے کہ… کہ ہم کتنے خاص ہیں… کہ …کہ ہم جیسا کوئی اور خاص نہیں ہو سکتا ہے…خاص ہونے کے اس احساس سے خود پر فخر ہونا ایک قدرتی بات ہے اور… اور ہمیں یقینا خود پر فخر ہو رہا ہے… اور اس لئے بھی ہو رہا ہے کہ ہمارے ساتھ ساتھ اب اُس پار والے کشمیر کی بھی بات ہو رہی ہے… اب اس کے نام پر بھی ووٹ مانگے جا رہے ہیں… اسے حاصل کرنے کی بات ہو رہی ہے اور… اور بار بار ہو رہی ہے… الیکشن میں ہو رہی ہے… اور جس تواتر کے ساتھ ہو رہی ہے… جس تواتر کے ساتھ امیت بھائی شاہ‘ راج ناتھ سنگھ ‘ نڈا صاحب اور بی جے پی کے باقی حضرات اُس پار والے کشمیر کی بات کررہے ہیں… یقینا اُس پار والے کشمیریوں میں بھی خاص ہونے کا احساس پیدا ہونے لگا ہو گا… بالکل اسی طرح جس طرح ہم میں یہ احساس پیدا ہو گیا ہے… خاص ہونے کا احساس… ۵؍اگست۲۰۱۹ کو ہماری خصوصی پوزیشن ختم کرنے کے بعد سے کچھ زیادہ ہی ہو رہا ہے ۔ہے نا؟