سرینگر، بارہمولہ اور اننت ناگ پارلیمانی حلقوں کے الیکشن نتائج کیا ہوں گے ان سے قطع نظر کشمیرنشین ہم خیال سیاسی جماعتوں کیلئے یہ ناگریز بن جائے گا کہ انہیں مستقبل کے حوالہ سے ایک نیا روڈ میپ وضع کرنے کی سمت میں اپنے اپنے انداز فکر اور اپروچ پر نظرثانی کرکے لائحہ عمل ترتیب دینے کیلئے ایک پلیٹ فورم پر اکٹھا ہونا پڑے گا۔
اگرچہ گپکار الائنس کی شکل وصورت میں ایک مشترکہ فورم فی الوقت منتشر حالت میں موجود ہے لیکن یہ وسیع البنیاد نہیں بلکہ فی الوقت یہ ایک پارٹی اور دو آدھی پارٹیوں پر مشتمل ہے بلکہ سمٹ کر رہ گیاہے۔ ابتداء میں سجاد غنی لون اور پی ڈی پی اس اتحاد کا حصہ تھے لیکن یہ دونوں پارٹیاں اپنے اپنے مخصوص پارٹی مفادات اور سیاسی اہداف کے پیش نظر گپکار الائنس کو داغ مفارقت دے گئی۔ سجا د غنی لون کی الائنس میں واپسی کا بادی النظرمیں کوئی امکان نہیں البتہ محبوبہ مفتی کی واپسی ممکن ہے۔ لیکن اس واپسی کی راہیں ہموار بنانے کیلئے نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی دونوں کو اپنے اپنے زبانی نریٹوز پر قابو پانا ہوگا، محبوبہ مفتی کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنی بیٹی، جنہیں وہ سیاست میں لانچ کرنے کی ابتداء کرچکی ہے کے ٹویٹر ہینڈل کو لگام دینی ہوگی جبکہ نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمرعبداللہ کیلئے بھی لازم ہوگا کہ وہ پی ڈی پی کے تعلق سے اپنے لہجہ اور انداز اپروچ میںلچک لاتے ہوئے آپسی ’اتھہ واس‘ کا راستہ ہموار کرنے میں اپنا رول اداکرے۔
چاہئے تینوں پارلیمانی حلقوں سے دونوں پارٹیوں کو فتح نصیب ہوجائے یا شکست کاسامنا کرنا پڑے ان دونوں کو الیکٹورل پراسیس کے حوالہ سے شیرین وتلخی سے عبارت ابواب کو ایک ڈرائونا خواب تصور کرکے آگے مستقبل کی فکر میں غوطہ زن ہونا پڑے گا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ مطلع پر کچھ بہتر آثارنظر نہیں آرہے ہیں دوئم وہ چند قوتیں جو کشمیری عوام کی خیر خواہی کا دم بھر رہی ہیں اور عوام کے تئیں سراپا حُسن غم نظرآرہی ہیں لیکن ان کا باطل کچھ اور ہی ہے ۔وہ کشمیر ی عوام اور کشمیر کے مفادات اور درپیش معاملات کی بات تو کررہے ہیں لیکن اُس بات میںوہ دم اور خلوص نہیں جو مطلوب ہے۔
جہاں تک کانگریس کا تعلق ہے وہ بھی اس ممکنہ اتحاد کا حصہ بن سکتی ہے اگر چہ جموں وکشمیر کو حاصل انہی کی پارٹی حکومت کی آئینی ضمانتوں ، جن کا اب کوئی اتہ پتہ نہیں ، کے تعلق سے کوئی ٹھوس موقف نہیں اورنہ ہی اس پارٹی کا اس حوالہ سے کوئی موقف یا نظریہ پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس کے اختیار کردہ موقفوں اور نظریوں سے مماثلت رکھتا ہے لیکن اس کے باوجود چونکہ دونوں پارٹیاں ملکی سطح پر انڈیا بلاک نامی اتحاد میںشامل ہے لہٰذا جموںوکشمیر سطح پر یہ آپسی اتحاد کی لڑی میں پروس سکتی ہے۔ کالعدم شدہ دفعہ ۳۷۰؍ کے تعلق سے پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس تقریباً ایک جیسا موقف رکھتی ہیں لیکن کانگریس کا کہنا ہے کہ اقتدار میں آنے کی صورت میں وہ جموںوکشمیر کے لئے ’’کچھ بہتر دینے کی صلاحیت رکھتی ہے‘‘۔ لہٰذا کانگریس کا موقف جہاں تک ۳۷۰؍ ایسی آئینی ضمانتوں کا تعلق ہے ، ٹھوس اور واضح ہے۔
ان سبھی کسی نہ کسی حوالہ سے ہم خیال پارٹیوں کا آپسی اتحاد اس لئے بھی ناگزیر بن چکا ہے کہ جموںوکشمیر کا اوسط ووٹ کئی نظریات، کئی عقیدوں ، کئی موقفوں، مذاہب، ذات پات، علاقہ اور فرقہ واریت کے حوالہ سے تقسیم درتقسیم ہوچکا ہے۔ ووٹ کی اس تقسیم کو اور مزید تقسیم کرکے مختلف نظریات کی حامل عقیدتی اور سیاسی پارٹیوں کے ساتھ وابستہ کرنے کیلئے بھی کئی سیاسی نما جو فروش میدان میں سرگرم اور مصروف عمل ہیں۔ یہ عنصر نہ کشمیر اور جموں کے درمیان کسی علاقائی یا عوامی سطح کی یکجہتی اور نظریاتی تعاون چاہتے ہیں اور نہ ہی کشمیرکی حدود کے اندر لوگوں کے مابین کسی ہم خیالی اورہم آہنگی کے خواہاں ہیں۔
یہ کوئی مفروضہ نہیں اور نہ کسی طرح کی قیاس آرائی، بلکہ زمین پر جو حقیقت کے طور اب نظرآرہا ہے اور جو بتدریج اُبھر رہا ہے اُس کی بُنیاد پر یہ وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ کشمیرکی معاشرتی زندگی اور سیاسی اُفق کو مختلف طریقوں سے پراگندہ بنانے کیلئے بیک وقت کئی حربے اور مذموم راستے اختیار کئے جارہے ہیں۔ حصول دولت کے لئے ایمان، تقویٰ، ضمیر اور روح اور جسم تک کو گروی رکھنے یا سودا کرنے والوں کی کسی بھی دور یا زمانے میںکوئی کمی نہیں رہی ہے ، اس تعلق سے کشمیر مستثنیٰ نہیں، سرزمین کشمیر نے ماضی میں ایسے کئی ادوار دیکھ بھی لئے ہیں اور ان سے لگے زخم سہ بھی لئے ہیں۔
لوگوں کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے حال پر گہری نظرڈالیں، گردوپیش کے حالات کا از خود احتساب کریں اور اس بات کا جائزہ لیں کہ آخر وہ کون سے معاملات حالات اور عوامل رہے ہیں جو ان کی سیاسی عدم استحکام، معاشرتی بے چینی ، غیر یقینی صورتحال اوراقتصادی ابتری کی اہم ترین وجوہات بنے ہیں، وہ اس حقیقت کو بھی اپنے ذہن میں رکھیں کہ دفعہ ۳۷۰؍ ایسی آئینی ضمانت کی واپسی ممکن نہیںکیونکہ ملکی سطح پر حالات میںنمایاں تبدیلی واقع ہوچکی ہے ، سپریم کورٹ سے جو توقعات تھیں وہ اس کے دستمبر کے فیصلے اوراب نظرثانی اپیلوں پر اس کے ردعمل سے زمین بوس ہوچکی ہیں، پھرا س بات کو بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ پرتشدد راستے اختیار کرنے سے معاملات کاازالہ یا حل ممکن نہیں، آپسی بات چیت کا کوئی متبادل آپشن نہیںہے، پھر جموںوکشمیر کی ترقی اور عوامی فلاحی کے راستے نئی دہلی سے ہی ہوکر گذرتے ہیں۔
البتہ ان معاملات اور اہداف کی تکمیل کیلئے راستے ہموار کرنے کیلئے پُر خلوص اورصالح قیادت کا ہونا پہلی شرط ہے،ا س قیادت کی نشاندہی اور انتخاب لوگوں کے اپنے ہاتھوں میںہے، اب کی بار بھی یہ بوجھ عوام کے کاندھوں پر آچکا ہے ۔ فیصلہ کریں کہ ان کی قیادت کا اہل اور باصلاحیت کون ہے؟