سرینگر///
جموں کشمیر اور لداخ ہائی کورٹ نے کالعدم تنظیم جماعت اسلامی کے سابق ترجمان کے خلاف پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت احتیاطی نظر بندی کے حکم کو غیر قانونی اور بلاجواز قرار دیتے ہوئے منسوخ کر دیا ہے ۔
عدالت عالیہ نے پلوامہ کے ضلع مجسٹریٹ اور سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولس کو سرزنش کرتے ہوئے جموں وکشمیر حکومت درخواست گذار کو پانچ لاکھ رویے معاوضہ دینے کا حکم دیا ہے ۔
ایڈوکیٹ علی محمد لون عرف ایڈوکیٹ زاہد علی بمقابلہ حکومت جموںکشمیر کے مقدمے کے سلسلے میں جسٹس راہول بھارتی کے سنگل بنچ نے کہا’’یہ عدالت بغیر کسی مزاحمت کے عرضی گذار کی احتیاطی نظر بندی کو غیر قانونی قرار دیتی ہے ‘‘۔
عدالت کے حکمنامے میں کہا گیا’’عرضی گذار کو سال۲۰۱۹سے مارچ۲۰۲۴تک مسلسل نظر بندی کے ۴؍احکامات کے دوران۱۰۸۰دنوں سے زیادہ کی مدت تک احتیاطی حراست میں رکھ کر اس کی آزادی کو نقصان کو پہنچایا گیا ہے ‘‘۔
ایس ایس پی پلوامہ کے ڈوزئیر میں عرضی گذار کو جموں و کشمیر ہائی کورٹ اور سری نگر صدر کورٹ میں پریکٹس کرنے والے ایک وکیل کے طور قرار دیا۔
ڈوزیئر میں کہا گیا کہ عرضی گذار نے مصر کے عبدالقادی عودہ کے لٹریچر سے متاثر ہوکر جماعت اسلامی میں شرکت کی اور سال۱۹۸۷میں مسلم متحدہ محاز کے امید وار کے طور پر پامپور حلقے سے اسمبلی الیکشن لڑا تھا۔
عدالت نے کہا’’گرچہ عرضی گذار نے ۲۵لاکھ رویے کے معاوضے کا دعویٰ کیا ہے تاہم عدالت کا موقف ہے کہ پانچ لاکھ روپیے کا معاوضہ انصاف کے مطابق ہے ، عدالت درخواست گذار کی احتیاطی حراست کو غیر قانونی قرار دیتی ہے اور اس کوپانچ لاکھ روپیے کے معاوضے کا حقدار بھی قرار دیتی ہے جو جواب دہندگان کو فیصلے کے تاریخ سے تین ماہ کے اندر ادا کرنے ہیں۔‘‘