انتخابات کا موسم ہے… انتخابات ہو رہے ہیں … ایسے میں صاحب بات تو انتخابات کی ہی ہو گی‘ انتخابی مہم کی ہو گی… انتخابی مہم کے دوران کی جانے والی باتوں کی ہو گی… ان باتوں کی جو اصل میں باتیں نہیں بلکہ طعنے ہیں… الزامات ہیں‘لفظوںاور الفاظ میں لڑائی ہے‘ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی جنگ ہے… اس جنگ میں سبھی جماعتیں پیش پیش ہیں… کوئی ایک جماعت بھی پیچھے نہیں ہے… کوئی ایک لیڈر بھی پیچھے نہیں ہے… ہاں اب اپنے آزاد صاحب تھوڑا تحمل‘تھوڑی شائستگی کا مظاہرہ کررہے ہیں یا مظاہرہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور… اور شاید اس لئے کررہے ہیں کیوں کہ یہ جناب خود تو الیکشن نہیں لڑ رہے ہیں … اس لئے انہیں اُس دباؤ کا سامنا نہیں ہے… اور بالکل بھی نہیں ہے جس دباؤ کو اپنے سجاد لون محسوس کررہے ہیں… عمر عبداللہ کے شمالی کشمیر سے الیکشن لڑنے سے محسوس کررہے ہیں… اسی لئے ان دونوں نے اپنی اپنی تلوار میان سے باہر ہی رکھی ہوئی ہے… اسے ایک لمحہ کیلئے بھی اندر نہیں رکھتے ہیں … سجاد لون نے عمر عبداللہ کو سیاح قرار دیا تو… تو جواب میں عمر عبداللہ کا کہنا ہے کہ صاحب اگر میں سیاح ہو ں… شمالی کشمیر کے لوک سبھا حلقے میں اگر میری حیثیت ایک سیاح کی ہے تو… تو پھر مجھ سیاح سے جیت کیلئے سجاد لون اپنی پارٹی کے سربراہ الطاف بخاری سے مدد کی بھیک کیوں مانگ رہے ہیں؟ صاحب بات تو صحیح ہے … لیکن … لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے… اور یہ بھی سچ ہے کہ کشمیر میں الیکشن نہیں ہو رہے ہیں‘خانہ جنگی نہ سہی لیکن جنگ ہو رہی ہے… اس جنگ میں بی جے پی تو دُم دبا کے بھاگ گئی اور… اور جو میدان میں ہیں…ان کا رویہ ایسا ہی جیسا ایک سپاہی … ہاتھ میں تلوار لئے سپا ہی کا میدان جنگ میں ہو جاتا ہے جو اپنی طرف آنے والی ہر ایک چیز کو کاٹنے کی غرض اور نیت سے اپنی تلوار چلاتا ہے… اسے استعمال کرتا ہے… اور اللہ میاں کی قسم سجاد لون اور عمر عبداللہ بھی اپنی اپنی تلوار… تلوار جیسی اپنی اپنی زبان چلا رہے ہیں … ایک دوسرے کو زیر کرنے کیلئے چلا رہے ہیں… یہ سمجھ کر چلا رہے ہیں کہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے …اور ایک بے چارہ کشمیری… کشمیری ووٹر ان کا تماشا دیکھ رہا ہے … یہ تماشا دیکھ رہا ہے کہ کیسے کشمیر میں انتخابی مہم ایک تماشا بن کے رہ گئی ہے جس کا کہیں سر اور نہ پیر ہے ۔ ہے نا؟