رواں الیکشن گہما گہمی نے کئی سیاسی وغیر سیاسی چہروں کو بے نقاب کردیا ہے۔ کچھ کا باطن بے نقاب ہورہاہے جبکہ کچھ کا ظاہر الف ننگا ۔ اس حوالہ سے جموںمیں وہ کچھ عناصر جن کا تعلق کچھ سیاسی جماعتوں سے بھی ہے کی طرف سے جموںکے ساتھ کشمیرنشین سابق حکمرانوں کے ہاتھوں روایتی امتیاز کی راگنی کا راگالاپنے کا عمل پھر سے شروع ہوا ہے۔ کشمیراور کشمیریوں کے ساتھ اپنی اس روایتی دُشمنی جس کا لب ولباب یانچوڑ کشمیریوں کی کردار کشی کے سوا اور کچھ نہیں کارواں الیکشن گہما گہمی کے دوران کھل کر اظہار کیاجارہاہے۔
کچھ عنصر تو اب اپنی کشمیر اور کشمیریوں کی دُشمنی ، تعصب اور فرقہ پرستی کے کینسر میں سراپا مبتلا کشمیرکو دو حصوں میں ٹکڑے ٹکڑے کرنے اورجموں کوجموںوکشمیر کے نقشے سے الگ تھلگ کرکے جموں پر مشتمل ایک علیحدہ سٹیٹ کے اُس پرانے نعرہ کو پھر سے زبان دے رہے ہیں جو نعرہ کبھی کسی مرحلہ پر جموں کے ڈوگرہ مطلق العنان خاندان کے جانشین سابق صدر ریاست ڈاکٹر کرن سنگھ نے دیا تھا۔
جموں کے ساتھ امیتازی سلوک کی راگنی نئی نہیں ہے ۔ اس کی ابتداء ۱۹۷۵ء میں اندرا شیخ اکارڈ کی روشنی میں کانگریس کی اقتدار سے دستبرداری اور شیخ محمدعبداللہ سے ۱۹۵۲ء میں چھینی حکومت کی واپسی کے ساتھ ہی کچھ عنصر کی طرف سے ہوئی۔ چلئے فرض کریں، جموں کے ساتھ کشمیرنشین حکمرانوں نے امتیاز کیا، انہیں ترقی سے محروم رکھا، تعلیم، صحت ، فلاحی پروگراموں میں حصہ داری، روزگار وغیرہ شعبوں میں جموں کے عوام کے ساتھ امتیاز روا رکھا گیا۔ اس راگنی کا راگ پہلے کچھ اور سیاسی وغیر سیاسی عنصروں کی طرف سے عرصہ تک الاپنے کا سلسلہ رہا اور ا ب گذشتہ چند برسوں کے دوران جموںکی سیاسی اُفق پر اُبھر ے کچھ نئے سیاسی وغیرسیاسی چہروں نے امتیاز کی مبینہ راگنی کا الاپ شروع کیا۔
کیا واقعی جموںکے ساتھ ایسا ہوا؟ جواب حاصل کرنے کیلئے محکمہ فینانس ،محکمہ منصوبہ بندی ، جنرل ڈیپارٹمنٹ، محکمہ مال اور دوسرے ادارے تو موجود ہیں جن کے پاس گذرے ۷۵؍ برس کا ریکارڈ ہے، اس مدت کے دوران جموںکے لئے بجٹ اور ترقیاتی کاموں کیلئے کتنی سرمایہ کاری ہوئی یا سرمایہ وقف کیا جاتارہا وہ بھی ریکارڈ پر ہے، کیوں کشمیر کی طرف سے بار بار کے اس مطالبے کہ حکومت جن کے ہاتھ میں ہے وہ وائٹ پیپر جاری کریں، کیوں اس راگنی کی بُنیاد پر وائٹ پیپر کو جاری نہیں کیاجارہاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ساری مدت کے دوران جموں کی صوبائی ایڈمنسٹریشن چناب اور پیر پنچال خطوں کوا ن کے تمام تر بُنیادی، ترقیاتی، تعلیمی ، صحت اور زندگی کے تعلق سے ہر ایک شعبے کے حوالہ سے محروم ہی نہیں رکھا بلکہ ان دونوں خطوں کی آبادی کو اپنی بدترین علاقہ پرستی، فرقہ پرستی اور متعصبانہ ذہنیت اور اپروچ کا نشانہ بناتی رہی۔
ایک سیاسی لیڈر کا کہنا ہے کہ ’’دہائیوں پر محیط جموں کے ساتھ امتیاز کا خاتمہ موجودہ حکمرانوں نے کیا‘‘۔ حکومت کے حوالہ سے ایک ذمہ دار عہدہ پر فائز اس سیاسی لیڈر کا یہ بیان نہ صرف انتہائی غیر ذمہ دار انہ ہے بلکہ علاقہ پرستی اور تعصب سے بھی عبارت ہے۔
انہی نعروں کو زبان دیتے ہوئے سابق اک جٹ جموں نامی تنظیم کے بانی نے اپنی تمام تر متعصبانہ اور علاقہ پرستانہ ذہنیت کا ایک بار پھر کھلم کھلا اظہار کرتے ہوئے جموںوکشمیر کی علاقائی اور جغرافیائی وحدت اور سالمیت کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے اپنے مذموم اور مکروہ ایجنڈا کی پھر سے نقاب کشائی کی ہے۔ اپنے الیکشن ایجنڈا کو پروان چڑھانے کی غرض سے انکر شرما نامی ٹکڑے ٹکڑے گینگ کے جموںنشین اس شخص نے وادی کشمیر کو دو حصوں میںتقسیم کرنے کا یہ کہکر مطالبہ کیا ہے کہ ایک حصے میں ان لوگوں کو بسایا جائے جو وادی سے ترک سکونت اختیا رکرچکے ہیں تاکہ اس مخصوص حصے میں گائے اور زمین کو مخصوص آئیڈیالوجی سے تحفظ کویقینی بنایاجاسکے۔ ٹکڑے ٹکڑے گینگ کے سربراہ نے بھی جموںکے ساتھ ۷۵؍ سال سے مبینہ زیادتی اور امتیازکی راگنی الاپی ہے۔
انتشار پسندی سے عبارت اس ننگی شرانگیزی ، کشمیرمخالف فوبیا، جموںوکشمیرکی جغرافیائی اورعلاقائی سالمیت اور وحدت کو کھلم کھلا پارہ پارہ کرنے کے ان نعروں پر نہ صرف جموں ایڈمنسٹریشن اور مرکزی سرکارخاموش ہے بلکہ شرمناک حد تک چنائو کمیشن بھی خاموش ہے کیونکہ ان نعروں اور شرانگیزی کو رواں الیکشن مہم کا اہم ایجنڈا بنایا جارہا ہے لیکن چنائو کمیشن حرکت نہیں کررہاہے۔
اس تمام تر تناظرمیں یہ کہنا بے جا نہیں کہ آج تک گذرے ۷۵؍ برسوں کے دوران کشمیر کی سیاسی اُفق پر جو کسی بھی سیاسی نظریے کا حامل سیاست کار جلوہ گر ہوااُس نے کشمیرکی جموں سے علیحدگی کی بات نہیںکی، فرقہ پرستی اور علاقہ پرستی سے عبارت کسی علاقائی جنون کو زبان نہیں دی بلکہ جب جب بھی جموں سے کسی حلقے کی جا نب سے ٹکڑوں یا تقیم کی بات کی جاتی رہی تو کشمیر نشین سیاستدانوں نے اُس کی مخالفت کی اور مکروہ عزائم سے عبارت منصوبہ قرار دے کر مسترد کیا جاتارہا۔
جموں کے ساتھ امتیاز کی راگنی کا راگ الاپنے والے عنصر اس زمینی حقیقت کو کیوں نظرانداز کررہے ہیں کہ چھوٹے بڑے صنعتی اداروں کے قیام کیلئے وقت وقت کی حکومتوں نے جموں کو ترجیح دی، مرکز ی سرکار یں اپنی سکیموں کی عمل آوری کے حوالہ سے جموں کو مخصوص کرتی رہی، تمام بڑے سرکاری یا غیر سرکاری اداروں کے صوبائی دفاتر جموں میںقائم کئے، جموں کے بعض مخصوص ذہنیت کے حامل سیاستدان ریل سروس کو جموں کے آگے کشمیر تک وسعت دینے کی ہمیشہ مخالفت پر کمر بستہ رہے، ان سارے اقدامات کے طفیل جموں کا پڑھالکھا اور غیر تعلیم یافتہ ہنرمند یا غیر ہنرمند نوجوان برسرروزگار ہوا جبکہ کشمیر کا یہ طبقہ قابل اعتماد روز گار سے محروم ہی ہوتا رہا۔ پھر بھی امتیاز کی راگنی ، یہ کہاں کا انصاف ہے؟