ادویات کے نا م پر لوگوں کو زہر کھلایا اور پلایا جارہاہے، اس حوالہ سے معتبر اور تصدیق شدہ شہادتوں کی موجودگی اور سنسنی خیز انکشافات کے باوجود مرکزی وریاستی حکومتوں کی اندھی سیاسی اور انتظامی مصلحتوں کی مطیع خاموشی ہر گزرتے ایام کے ساتھ عوامی سطح پر فکر مندی اور تشویش کا باعث بنتی جارہی ہے۔ کیوں تمام تر ثبوتوں ، لیبارٹریوں کی تجزیاتی رپورٹوں اور معتبر دستاویزی ثبوتوں اور شہادتوں کے باوجود حکومتی سطح پر دو ا ساز کمپنیوں کے خلاف کوئی سخت ترین یا باعث عبرت کارروائی نہیں کی جارہی ہے یہ ایک معمہ ضرور ہوتا لیکن الیکٹورل بانڈز کے نام پر برسراقتدار سیاسی جماعتوں کی تجوریوں میںکمپنیوںکی جانب سے کروڑو ں روپے کے نذرانوں کی ادائیگی کے تناظرمیں یہ معمہ اب معمہ نہیں رہا بلکہ ملکی سطح پر اس لین دین کو عالمی سطح کا سب سے بڑا سکینڈل تصور کیاجارہاہے۔
ملکی اور ریاستوں کی سطح پر غیر موثر اور دونمبری ادویات کی کھپت کے تعلق سے کس حد تک فکری مندی اور تشویش پائی جارہی ہے اس کی زیادہ علمیت نہیں لیکن کشمیرکے بازاروں کے تعلق سے یہ بات اب پوشیدہ نہیں کہ کشمیرکے دوا بازار ۹۰؍ فیصد حد تک نقلی اور غیر موثر ادویات کی خرید وفروخت کی منڈیوں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ اس تعلق سے آئے روز کے سنسنی خیز انکشافات اور معلومات کی جانکاری کے باوجود جموںوکشمیر ایڈمنسٹریشن بے اعتنا ہے، بازاروں میںدستیاب اس نقلی منڈی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جارہی ہے،کسی بھی دوا برینڈ کو لیبارٹریوں میںتجزیہ کیلئے پیش نہیں کیاجارہاہے اور نہ ہی ان اطلاعات جو دوسری ریاستوں سے ادویات کے لیبارٹری ٹیسٹوں کے حوالہ سے منظرعام پر آتی رہی ہیں کی روشنی میں کسی نوعیت کی کوئی کارروائی کی جاتی ہے۔
اس حوالہ سے جو تازہ ترین معلومات حالیہ کچھ ایام میں منظرعام پر تسلسل کے ساتھ آتی رہی ہیں ان کی روشنی میں کہاجاسکتا ہے کہ ہماچل پردیش ملک کی نقلی ادویات کی سب سے بڑی راجدھانی کے طور ملک کے نقشے پر اُبھر رہی ہے۔ جو اعداد وشمار فی الوقت دستیاب ہیں ان کے مطابق گذشتہ ۳؍ برسوں کے دوران ہماچل پردیش کی دوا ساز کمپنیوں میں تیار ۱۶۸۳؍ اقسام کی ادویات غیر معیاری، غیرموثراور نقلی پائی گئیں۔ اس سال جنوری میں ۴۰، فروری میں ۱۴ اور مارچ کے دوران ۲۳؍ مختلف اقسام کی ادویات جن میں کچھ اینٹی بائیوٹکس ، درد نجات ادویات، بلڈ پریشر ، انٹی الرجک، بلڈ کلاٹ وغیرہ سے ہے کو غیر معیاری اور نقلی پایاگیا۔ متعلقہ دوا ساز کمپنیوں کے نام شو کاز نوٹس توا جراء کی جاتی رہی لیکن فی الوقت تک کسی کارخانہ ؍فیکٹری کو بند نہیں کیا گیا البتہ کچھ نقلی اقسام کی ادویات تیار کرنے میںملوث کارخانوں کو ہدایت دی گئی کہ وہ ان ادویات کی تیاری روک لیں۔ خیال کیاجاتا ہے کہ ہماچل حکومت کے یہ اقدامات اشک شوئی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔
معلوم نہیں کہ جموںوکشمیر جو پہلے ریاست تھی اور اب مرکزی علاقہ کی حیثیت رکھتا ہے کی سابق وزارت صحت اور فی الوقت سیکریٹریٹ سطح کی ایڈمنسٹریشن نے بازاروں میں ادویات کی دستیابی اور جانچ پڑتال کیلئے کس نوعیت کے پیمانے اور معیارات مقرر کررکھے ہیں لیکن جو بھی ہیں وہ اب تک بے اعتبار اور غیر فعال ہی ثابت ہوئے ہیں۔ اس امر کی مسلسل اطلاعات سامنے آرہی ہیں کہ کشمیرکے بازار نقلی اور غیر معیاری ادویات سے بھرے پڑے ہیں ۔ کوئی جانچ پڑتال نہیں، نگرانی کا کوئی سسٹم فعال نہیں، ڈاکٹروں اوردواساز کمپنیوں کے ایجنٹوں کا ایک مخصوص سوچ اور اپروچ کا حامل طبقہ غیر معیاری ادویات کی کھپت اور خرید وفروخت میںمعاونتی کرداراداکررہاہے، بلکہ کچھ ایک اطلاعات یہ بھی ہیں کہ کچھ ڈاکٹر ان ادویات کو بھی تجویز کرنے میںملوث اور مرتکب پائے گئے ہیں جن کی آزمائش ابھی کمپنی سطح پر بھی مکمل نہیں ہو پائی تھی۔ یہ بھی دعویٰ کیاجارہاہے کہ بعض کاروباری ملک کی مختلف دوا سازکمپنیوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے مختلف ادویات کی کمبنیشن میں ملوث ہیں جس کمبنیشن کی مخصوص ادویات ملک کے کسی دوسرے بازار سے دستیاب نہیں۔
لیکن ان معاملات کی تحقیقات کون کرے؟ کہنے کو تو ایک ڈرگ کنٹرول اتھارٹی کے نام پر ایک بھرپور ادارہ موجود ہے لیکن اس مخصوص ادارہ کی کارکردگی کے آگے بہت بڑا سوالیہ لگ چکا ہے لوگوں کی اکثریت محکمہ صحت کی اس ذیلی اکائی… ڈرگ کنٹرول پر اعتبار نہیں رکھتے۔ کشمیرکے ہسپتالوں ، سرکاری ہیلتھ سینٹروں ، پرائیوٹ نرسنگ ہیوموں ، نجی کلنکوں ، وغیرہ پر مریضوں کی لمبی لمبی قطاریں اس بات کا ایک ناقابل تردید ثبوت ہے کہ ایک منظم ذہنیت کے تحت کشمیر کو ادویات کے نام پر غیر موثر اور غیر فعال ادویات کھلائی اور پلائی جارہی ہے۔ کوئی معمولی مرض جسم میں سرائیت کرجائے، اس کا علاج ومعالجہ کیلئے ادویات کے استعمال کے ساتھ ہی دوسرے امراض پیدا ہوتے جارہے ہیں۔
کشمیرمیںلوگوں کے مختلف امراض میں مبتلا ہونے کا شرح تناسب جو بڑھتا جارہا ہے کو دیکھتے اور گہرائی سے تجزیہ کرکے ملک کی سرکردہ بزنس شخصیتوں نے اپنے ہسپتالوں اور نجی کلنکوں کی شاخوں کادائرہ کشمیر تک بڑھادیا ہے یا وسعت دینے میںمصروف ہیں، اس کے باوجود یہ جاننے کی ذرہ بھر بھی کوشش نہیں کی جارہی ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ملکی سطح کے شعبہ صحت سے وابستہ بڑے بڑے بزنس ادارے کشمیرکی طرف رُخ کررہے ہیں اور اپنے توسیعی ادارے سرمایہ کاری کے نام پر قائم کرتے جارہے ہیں۔ کیا یہ غوروفکر کا مقام نہیں؟
کشمیر کو امراض میںمبتلا رکھنا اب بعض ڈاکٹروں ، دواساز کمپنیوں ، ان کے ایجنٹوں اور کشمیر نشین سٹاکسٹوں اور کاروباریوں کے لئے منظم تجارت کا رُخ اختیار کرتا جارہا ہے۔ یہ وبائی صورت اختیار کرتی جارہی ہے۔ جس حوالہ سے لین دین، بدعنوانیوں اور کورپشن کی ایک بہت بڑی منڈی معرض وجود میں آرہی ہے۔ ادویات کی فروخت کے نام پر سالانہ اربوں روپے کا سرمایہ کشمیریوں سے وصول کیاجارہاہے اور اس کی ادائیگی اب اوسط کشمیری مریض کیلئے مجبوری بن چکی ہے۔