ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی سرپرستی میں نیشنل کانفرنس اور سجاد غنی لون کی ’یوٹرن‘ قیادت میں پیپلز کانفرنس کے درمیان دونوں کے ماضی ، ماضی قریب اور حال کے تناظرمیں ’لفظی جنگ‘ جسے کشمیر کہاوت کے مصداق ’مونڈہ پام پام‘ کا عنوان چسپاں کیاجاسکتا ہے کچھ عرصہ سے جاری ہے۔ دونوں کی اس مفاداتی جنگ کو یہ دوسرا نام اور عنوان بھی عطاکیاجاسکتا ہے ’چولیوں کے پیچھے کیا ہے ، جواب سیدھے سادھے اور قابل فہم زبان میں یہی ہوسکتا ہے کہ دونوں کی چولیاں داغدار، سیاہ دھبوں ، فریب ، یوٹرن، ریاکاری، جعلسازی ، گمراہ کن نعروں، جذبات کا بدترین استحصال اور ناقابل تردید دھوکہ دیہی کے سوا کچھ بھی نظرنہیں آرہاہے۔
جس سیاسی نظریہ اور عوامی مفادات کے حوالہ سے تسلسل نہ ہو وہ سیاست اور اُس سیاست کے علمبردار ناقابل اعتبار، ریاکار اور دھوکہ باز ہی قرار پاتے ہیں۔ ماضی اور ماضی قریب کے ساتھ ساتھ اور اگر حال کوئی حقیقت ہے تو یہی ہے کہ فی الوقت مین اسٹریم سے وابستہ یہ دونوں جماعتیں عوام کے وسیع ترحقوق اور مفادات کا تحفظ کرنے میں نہ صرف ناکام ہیں بلکہ عوام کاان پر، ماسوائے چند اندھے سیاسی جاہلوں کے ، کاکوئی اعتبار باقی نہیں رہاہے۔
ایک دوسرے کی چولیوں کی تاک جھانک کرنے اور گلے پھاڑپھاڑ کر چیخ وپکار کے بحروپیکران طے کرنے کی کوشش کرکے کیایہ پارٹیاں یہ فرض کررہی ہیںکہ عوام ان کی اس منڈہ پام پام سے متاثر ہو کر ان کے محبت میں گرفتار ہوگی، نہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہے بلکہ یہ اُن کی خام خیالی ہے۔
دونوں ایک دوسرے کو جنگجوئیت کو فروغ دینے ، ہلاکتوں میں ملوث ہونے اور ان کی آڑ میں وقتی مفادات حاصل کرنے کے الزامات عائد کررہے ہیں۔ حقیقت کیا ہے……؟ دونوں سچ ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ اپنے اپنے معاونتی کردار اور سرتا پا ملوث ہونے سے انکاری ہیں۔ کیا یہ تلخ سچ نہیں کہ دہشت گردوں کے ہاتھوں یوسف حلوائی اور کرالہ کھڈ کے قریب نئی سڑک پر ایک اور نیشنل کانفرنسی حمایتی کی سفاکانہ ہلاکتوں کے ردعمل میں نیشنل کانفرنس کی قیادت نے ایک محتاط اندازہ کے مطابق دو سو کارکنوں کو اسلحہ اور جنگجوئیت کی تربیت کیلئے سرحد پار روانہ کردیا۔ اخوان سے وابستہ کچھ سرنڈر دہشت گردوں کو اپنا لیا اور کچھ کو قانون سازیہ کی رکنیت کی دہلیز بھی عبور کروائی۔ نیشنل کانفرنس کی ہی قیادت نے کشمیری معاشرہ کو دوپھاڑ یا دوسرے لفظوںمیں مسلکی خطوط پر تقسیم کرنے کی نیم ڈالی، ترک موالات کی اخلاقی گراوٹ سے عبارت نفرت انگیز تحریک کی قیادت کی، شیر اور بکرا کے نام پر لوگوں کو باہم گربیاں کردیا۔ کیایہ تاریخی حقائق نہیں!
مرحوم عبدالغنی لون کا سیاسی سفر بھی کچھ مختلف نہیں تھا، قومی دھارے سے وابستہ رہ کر کئی وزارتی عہدوں پر متمکن رہے۔ عسکری دور اور علیحدگی تحریک شروع ہوئی تو یوٹرن لے کر علیحدگی پسند کیمپ سے وابستہ ہو گئے اور حریت کانفرنس کے صف اول کے لیڈروں میں شمار ہوئے، پیپلز کانفرنس کو حریت کانفرنس کی ایک اکائی بنادیا، ساتھ ہی پیپلز کانفرنس کی عسکری ونگ کو بھی وجود بخشا گیا ۔ سجا د غنی لون اور بلال غنی لون اس حوالہ سے علیحدگی پسند سیاست اور عسکری ونگ سے وابستہ رہے۔ سجاد غنی لون خود علیحدگی پسند نظریات کی ترجمانی کرتے رہے۔ برکھادت اور دوسری ٹی وی چینلوں کے ساتھ ان کے بحث وتکرار اور اخباری بیانات آج کی تاریخ میں بطور گواہ دستیاب ہوں گے۔
اس تعلق سے سجاد غنی لون پر نیشنل کانفرنس کا ملی ٹنٹ ہونے کا الزام یا دعویٰ کچھ غلط نہیں۔ پھر سجاد غنی کا یہ سوال کہ نیشنل کانفرنس کی قیادت نے کشمیری مسلمانوں کی ہلاکتوں کو لے کر کیوں کبھی گورنر سے ملاقات نہیں کی تو سوال یہی ذہن میں اُبھر کرآرہاہے کہ جب سجاد صاحب بی جے پی اور پی ڈی پی کی وزارتی کونسل کا حصہ تھے اور سیکریٹریٹ کی گلیاروں میں عمران انصاری، سید بشارت بخاری اور چند دوسرے حضرات کے ساتھ شمع محفل ہواکرتے تھے اور سڑکوں پر محترمہ مفتی صاحبہ پیلٹ گنوں اور گولیوں کا شکار افراد کے بارے میں چیختی اور چلاتی رہتی کہ یہ لوگ گھروں سے دودھ اور مٹھائیاں خریدنے کیلئے باہر نہیں آرہے ہیں تو کیا سجاد غنی لون نے ان ہلاکتوں پر اسوقت کی اپنی اختراعی ’بہن‘ سے کوئی سوال کیا؟ کوئی احتجاج کیا؟ اگرنہیں تو پوچھا جاسکتا ہے کہ کیوں نہیں؟
آج کی تاریخ میںنیشنل کانفرنس کی قیادت اگر کچھ پنڈتوں کی افسوسناک ہلاکت کے مسلسل واقعات کو لے کر گورنر سے مل رہی ہے، ان کے تحفظ کا مطالبہ کررہی ہے اور ان بہیمانہ واقعات پر اپنی فکر وتشویش کو زبان دے رہی ہے تو سجا د غنی لون کو اس پر اعتراض کیوں؟ کیوں وہ این سی کے اس فعل پر آگ بگولہ ہورہے ہیں۔ کیا یہ منافقت کی سیاست نہیں؟ کیا یہ فرقہ پرستی اور ریاکاری نہیں؟ منافقت اور سیاسی ریاکاری کا یہ سفر دراصل’وطنیت کے حصول‘ سے لے کر وزارتی عہدہ پر تمام تر تکبر رعونت اور متکبرانہ انداز فکر اور طرزعمل کے ساتھ جلوہ گری اور اب مخصوص ہلاکتوں تک قرار دیاجاسکتا ہے جو پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کی طرز سیاست اور سیاسی حماقتوں کے ساتھ فی الحال جاری ہے۔
عوام کی بدقسمتی یہ ہے کہ انہیں اب تک باالخصوص گذرے ۷۵؍برسوں کے دوران جو بھی خود ساختہ قیادت کے دعویدار ملے انہوںنے بحیثیت مجموعی بھی اور انفرادی طور پر بھی عوام کو ہر محاذ کے حوالہ سے ناکامی سے دوچار کردیا۔ کسی نے علیحدگی اور آزادی کے نام پر عوام کو سبز باغ دکھادیئے، کسی نے اٹانومی اور خودمختاری کے نا م پر، کسی نے سیلف رول کے نام پر توکسی نے حصول وطنیت کا نعرہ بلند کرکے۔ لیکن سب نے اپنے اپنے لئے آزادی بھی خریدی، خودمختاری بھی حاصل کی، سیلف رول کے ثمرات بھی سمیٹ لئے اور حصول وطنیت کا پھل بھی چکھ لیا۔ لوگوںکو کیا ملا…؟
اب جبکہ اس وقت گورنر ایڈمنسٹریشن سابق ادوار کی سیاہ کاریوں، کورپشن ، بدعنوانیوں، سابق حکومتوں کے استحصالانہ اور لٹیرے طرزعمل سے عبارت حکمرانیوں اور عوام کی مجموعی ترقی اور مجروح اعتبار پر مرہم رکھنے کی جہد مسلسل میں ہے کشمیر نشین بعض سیاسی مسخرے اس راہ میں رخنہ انداز ہونے کی مختلف طریقوں اور نعروں کی آڑمیں کوشش کررہے ہیں۔ یہ سیاست کار اپنی باری کھیل چکے ہیں لیکن اب باری عوام کی ہے کہ وہ اپنے حال اور مستقبل کیلئے اپنا کرداراداکرنے کیلئے میدان میں کود کر کمر بستہ ہوجائیں!!