نیشنل کانفرنس کی قیادت اور مرحوم مفتی محمد سعید کے درمیان نظریہ کی جنگ اُس وقت شروع ہوئی جب مرحوم مفتی سعید کا نگریس سے وابستہ تھے۔ اس نظریاتی جنگ کی اصل وجہ کیا تھی اور یہ کیوں طول پکڑتی رہی اس کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ البتہ مرحو م سید میر قاسم کی سوانح ’داستان حیات‘ میں اس حوالہ سے کچھ توجہ طلب حوالہ ضرور پڑھنے کو ملتے ہیں۔
دونوں کے درمیان یہ جنگ تسلسل کے ساتھ اب تک جاری ہے۔ البتہ گپکار الائنس کی تشکیل کے بعد یہ توقع کی جارہی تھی کہ اس نظریاتی جنگ کا خاتمہ ہوگا لیکن یہ توقع بھی حسرت ناک انجام پر منتج ہوئی۔ پارلیمانی الیکشن میں بحیثیت اپوزیشن اتحاد کی اکائیوں کے پھر یہ توقع اُبھری کہ شاید وسیع ترمفادات میں یہ آپسی اختلافات کو حاشیہ پر رکھ کر کسی نہ کسی روڈ میپ پر متفق ہوجائیں گے لیکن یہ اُمید بھی دم توڑ گئی ۔ اس کے ساتھ ہی مشترکہ اُمیدوار میدان میں جھونکنے کے امکانات بھی ختم ہو کر دونوں کی راہیں جداہوگئی۔
نیشنل کانفرنس کی قیادت نے اپنی سابق روایات کو برقرار رکھتے ہوئے ملکی سطح کی پارٹی کانگریس کا دامن بدستور پکڑے رکھنے کا یہ کہکر اعلان کردیا ہے کہ دونوں پارٹیوں کے اُمیدوار تمام پانچ پارلیمانی حلقوق سے الیکشن لڑیں گے اور ایک دوسرے کی الیکشن مہم کا حصہ بنے گی۔ کانگریس کے چنائو منشور میں جموںوکشمیر کے تعلق سے ریاستی درجہ کی بحالی کے وعدے کا بھی پارٹی کی طرف سے خیر مقدم کیا گیا۔
کشمیر کی اس گرینڈ اولڈ پارٹی کا کانگریس یا کسی اور پارٹی کے ساتھ یارانہ اس کی اپنی سہولیت ، مصلحت، نظریہ اور صوابدید سے وابستہ ہے جو قابل اعتراض نہیں لیکن کشمیر کے حوالہ سے کانگریس پارٹی اور اس کی قیادت میں مرکز میں برسراقتدار حکومتوں کا جو رول اور پالیسی رہی ہے اُس پر نیشنل کانفرنس نے کبھی اور کسی بھی مرحلہ پر اعتراض نہیں کیا، کبھی سوال نہیں کیا، کبھی پارٹی کی قیادت سے یہ نہیں پوچھا کہ ان وعدئوں، دعوئوں اور عہد بندیوں کا کیا ہوا جو کشمیرکے ساتھ پارٹی کی اولین قیادت نے کئے تھے اور جو آئینی ضمانتیں دی تھی انہیں اندر ہی اندر سے کھوکھلا بناکر عہد شکنیوں کے انبار کھڑا کئے۔
اس کے باوجود پارٹی کانگریس کے ساتھ یارانہ کو مستحکم کرتی جارہی ہے جس کاکشمیر کا سنجیدہ فکر اور حساس طبقہ ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے اور جو کچھ کشمیر کے ساتھ ہوا اس کی بُنیاد اسی کانگریس کی مرہون منت سمجھا جارہاہے۔ لیکن عوام کے اس احساس اور تاثر کو نیشنل کانفرنس مسلسل نظرانداز کرتی جارہی ہے بلکہ ایک طرح سے کانگریس کو کشمیر پر مسلط کرنے میںلانچنگ پیڈ کا سا کردار ادا کررہی ہے ۔
کانگریس نے اپنے چنائو منشور میں جموںوکشمیر کاریاستی درجہ بحال کرنے کا جووعدہ کیا ہے اس کی نہ زیادہ اہمیت ہے اور نہ ہی اسے کوئی احسان تصور کیاجاسکتا ہے ۔ کانگریس نے ۵؍اگست کو ریاست کا حشر اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود خاموشی اختیار کی البتہ یہ صحیح ہے کہ پارلیمنٹ سے باہر اپنے کچھ بیانات میں اپنے کچھ اعتراض کو زبان دی۔ آئین کی دفعہ ۳۷۰؍ اور ۳۵؍ اے کی کالعدمی ایسے حساس اور جموںوکشمیر کیلئے بے حد اہمیت کی حامل آئینی تحفظات پر خاص طور سے اس کی خاموشی کو بھر پور سنجیدگی کے ساتھ نوٹ کیاگیا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کانگریس کے پہلے وزیراعظم جواہر لال نہرو نے آئین کی دفعہ ۳۷۰؍ کو اندر ہی اندر سے کھوکھلا بناکر ختم کرنے کی بُنیاد رکھی۔کانگریس کے دورا قتدار میںہی کچھ ورکنگ گروپ تشکیل دیئے گئے جن میں سے ایک گروپ جسٹس صغیر احمد کی قیادت نے اندرونی خود مختاری کے سوال کا مزید جائز ہ لینے کی سفارش کی جس کی روشنی میں عمرعبداللہ کی قیادت میں برسراقتدار حکومت میں شامل کچھ کانگریسی وزراء پر مشتمل کابینہ سب کمیٹی تشکیل دی گئی جس کمیٹی میںشامل کانگریس کے ارکان نے اندرونی خودمختاری کے غبارے سے یہ کہکر ہوا نکال دی کہ یہ معاملہ ۱۹۷۵ء میں اندرا شیخ اکارڈ کے وقت ہی طے ہوچکا ہے لہٰذا اس پر مزید غوروفکر کی ضرورت نہیں۔ لیکن نیشنل کانفرنس کی قیادت نے اس مرحلہ پر بھی کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ تاج محی الدین کی قیادت میں اس وقت کے کانگریسی گروپ کے سامنے سرنڈر کرنے کو ہی ترجیح دی۔
کیا نیشنل کانفرنس کی قیادت یہ تصور کررہی ہے کہ ان حساس نوعیت کے معاملات پر کانگریس کے رول اور کردار کے بارے میں عوامی سطح پر کوئی جانکاری نہیں لہٰذا بدلتے نریٹوز کے ساتھ کانگریس کے ساتھ ناجائز سیاسی مصلحتوں کے تحت یارانہ کو عوام پر مسلط کرنے کی شرمناک کوشش کی جارہی ہے۔ اس تصویر کا دوسرا رُخ یہ بھی ہے کہ کانگریس کے ساتھ اپنے یارانہ کو آگے بڑھاتے وقت پارٹی یہ کھلم کھلا اعتراف کررہی ہے کہ عوام پر اس کا اثرورسوخ کم ہوتا جارہاہے اور کبھی کسی زمانے میں کشمیری عوام کا ناقابل تسخیر سیاسی قلعہ سمجھنے والی پارٹی کا خوداس کی قیادت کے ہاتھوں یہ حشر ہو یقین کرنا قدرے مشکل ہورہاہے۔
ان تاریخی حقائق کے باوجود اگر لوگ پارٹی کے اس یارانہ کو کسی نئی سیاسی مصلحت یا نظریہ ضرورت کے پیش نظر صحیح سمجھ رہے ہیں اور پارٹی کے حق میں اپنے منڈیٹ کا اعادہ کرتے ہیں تو عوام کی چاہت، اظہار رائے کی آزادی اور ترجیح کے آگے سرخم کئے بغیر نہیں رہا جاسکتا ہے۔کیونکہ عام فہم یہ بات زبان زدہ عام ہے اور بطور ضرب المثل کے بھی کہ عوام کو ہی طاقت کا اصل سرچشمہ سمجھا جارہاہے لوگوں کے منڈیٹ کا احترام پھر فرض بن جاتا ہے ۔
مستقبل کے تعلق سے کانگریس اور نیشنل کانفرنس کے درمیان گٹھ جوڑ کے کچھ اہم پہلو بھی ہیں جن میں سے کچھ کا تعلق منفی ردعمل سے ہے جبکہ کچھ کا تعلق مثبت ردعمل سے ہے ۔ منفی ردعمل کی صورت میں کشمیر کیلئے مستقبل مزید ازیتوں سے عبارت ثابت ہوسکتا ہے جبکہ مثبت ردعمل کی صورت میں ممکن ہے کشمیر کو کچھ شعبوں میں استفادہ حاصل ہوسکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔