اب صاحب ولن کون ہے اور ہیرو کون ؟ ہم نہیں جانتے ہیں … ممکن ہے کہ جن کو ہم ولن سمجھتے ہیں وہ ہیرو ہوں اور جنہیں ہم ہیرو سمجھتے ہوں وہ اصل میں ولن ہوں… ولن کا کام کرتے ہوں …ہم ولن اور نہ ہیرو کی طرف داری کررہے ہیں کہ ہم نے دیکھا ہے کہ ہیرو میں تھوڑا ولن ہوتا ہے اور … اور ولن میں تھوڑا سا ہیرو ہو تا ہے… کہ کشمیر میں عام طور پر نجی اسکولوں کو ولن سمجھاتا ہے… پڑھائی کے معیار میں ولن نہیں سمجھا تاہے … بلکہ اس کے علاوہ باقی سب باتوں میں… فیس میں ‘ ایڈمشن فیس میں ‘ انول فیس میں ‘ کتابوںاور وردی کی قیمتوں… آسمان کو چھوتی قیمتوں میں انہیں ولن سمجھا جاتا ہے… محکمہ تعلیم اس سب کو روکنے کی ناکام کوشش کرکے خود کو ہیرو ظاہر کرنے کی کوشش کررہا ہے… ناکام کوشش۔اسی کوشش میں محکمہ تعلیم آجکل نجی اسکولوں کو متنبہ کررہا ہے کہ وہ لوگوں کو کسی مخصوص دکان یا اسکول سے ہی کتابیں خریدنے پر مجبور نہ کریں… اچھی بات ہے ہمیں اس سوچ پر کوئی اعتراض نہیں ہے… لیکن… لیکن محکمہ پھر یہ نہیں بتا پاتا ہے کہ اگر لوگ اسکول یا مخصوص بل سیلر سے کتابیں نہ خریدیں تو… تو پھر کہاں سے انہیں حاصل کیا جا سکتا ہے … بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی ہے کہ… کہ کہنے والوں کاکہنا ہے کہ انہیں اسکول یا کسی مخصوص بک سیلر سے کباتیں خریدنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے… اور محکمہ تعلیم کا اعتراض بھی بے محل ہے… اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ… کہ اگر محکمہ تعلیم کو لوگوں کی اتنی ہی فکر ہے تو… تو پھر محکمہ کواس ایک بات پر توجہ دینی چاہئے کہ کتابوں کی جو قیمتیں مقرر کی جا رہی ہیں… جس قیمت پر یہ کتابیں بازار میں یا کسی مخصوص بل سیلر کے پاس دستیاب ہوں … ایک مناسب قیمت پر دستیاب ہوں …لیکن … لیکن محکمہ کتابوں کی قمیت پر کوئی توجہ نہیں دے رہا ہے کہ… کہ اس کی توجہ اس ایک بات پر مرکوز ہے کہ لوگوں کو کسی مخصوص بل سیلر سے کتابیں خریدنے پر مجبور نہیں کیا جانا ہے… ہم تو صاحب کہہ رہے ہیں کہ اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے… اگر کسی مخصوص بک سیلر کے پاس مناسب قیمت پر کتابیں دستیاب ہوں تو۔ لیکن… لیکن یقینا مناسب قیمت پر کتابیں دستیاب نہیں ہو تی ہیں… اور اس لئے نہیں ہو تی ہیں کیونکہ محکمہ تعلیم قیمتوں پر کوئی دھیان دے رہا ہے… کہ اس کا سارا دھیان خود کو ہیرو ظاہر کرنے پر ہوتا ہے جو محکمہ تعلیم نہیں ہے اور… اور بالکل بھی نہیں ہے ۔ ہے نا؟