سڑک ، پانی اور بجلی یہ تین شعبے زندگی اور معمولات کے حوالہ سے کتنے اہم ہیں اس کا اندازہ تو وہی لگاسکتے ہیں جو ان تینوں سے مسلسل محروم ہیں یا جنہیں کمی کا سامنا ہے ۔ کشمیر کے حوالہ سے بات کی جائے تو کشمیر بلند وبانگ دعوئوں سے قطع نظر بحیثیت مجموعی ان تینوں شعبوں میں ہر گذرتے ایام کے ساتھ بچھڑتا جارہاہے۔ یہ کوئی مفروضہ یا پروپیگنڈہ نہیں اور نہ ہی اس کا تعلق کسی مخالفانہ جذبے یا کسی بلا جواز تنقیدی طرزعمل سے ہے بلکہ زمینی حقیقت یہی ہے اور اس تلخ زمینی حقیقت کا سامنا کشمیر کی آبادی کے مختلف حصوں اور طبقوں کو ہے ۔
جل شکتی پروجیکٹ ہاتھ میں لیاگیا اور آبادی کو یہ یقین دلایا جاتارہا کہ اس سکیم کی عمل آوری کے ساتھ ہی ہر گھر تک نل کی وساطت سے پینے کیلئے صاف پانی کی سپلائی یقینی بن جائیگی، تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم بچوں کو بھی پانی کی یہ سہولیت دستیاب رہیگی جبکہ دیگر ادارے بھی مستفید ہوتے رہیں گے لیکن سکیم کی عمل آوری کو اب بہت عرصہ بیت گیا لیکن فائدہ آبادی کے کتنے لوگوں کو پہنچا اس بارے میں کوئی زیادہ جانکاری تو دستیاب نہیں البتہ دعوئوں کے انبار ضرور منہ چڑا رہے ہیں۔
آج کی تاریخ میں آبادی کے بہت سارے طبقے اور خطے اُسی پرانے طریقہ کار پر چلتے اپنی پانی کی ضروریات کماحقہ پوری کررہے ہیں۔ لیکن اس ضرورت کی تکمیل کیلئے انہیں باالخصوص گھریلو خواتین اور بچوں کو کس قدر سخت محنت، طویل سفر اور دشواریوں کاسامنا کرنا پڑرہا ہے اس حوالہ سے مختصر طور سے یہی کہاجاسکتاہے کہ ’’جو تین لاگے وہی تن جانے ‘‘ ۔ آج بھی آبادی کا بہت بڑا حصہ گندی ندی نالوں اور دوسرے غیر صحت پانی کے ذرائع اپنی روزمرہ ضروریات پوری کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ آبادی کے یہ طبقے اس پانی کے مسلسل استعمال کے نتیجہ میں مختلف امراض میں بھی مبتلا ہیں جن میں یرقان ، دست ، قئے، ہیپٹائٹس ، انتڑیوں کی سوزش، انفیکشن وغیرہ خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ اس زمینی حقیقت کے باوجود محکمہ جل شکتی کا دعویٰ ہے کہ اس نے لوگوں کو صاف پانی فراہم کرکے بہت بڑا بلکہ فخریہ کارنامہ سرانجام دیا ہے، محکمہ کے اس دعویٰ کو سند قبولیت اور اعتباریت عطاکرتے اگر زمینی سطح پر اس دعویٰ کا کوئی ذرہ بھر بھی عکس دکھائی دے رہا ہوتا اور اگر سابق کمشنر جل شکتی نے کچھ سنسنی خیز انکشافات نہ کئے ہوتے۔
سڑک کا جہاں تک تعلق ہے، اس تعلق سے مسلسل یہ دعویٰ کئے جارہے ہیں کہ ہر گذرتے سال کے دوران سینکڑوں کلومیٹر لمبی سڑکوں کو میکڈم کے دائرے میں لایاجارہا ہے، یہ دعویٰ جزوی طو ر سے درست ہے جبکہ سڑکوں کی اکثریت چاہئے ان کا شمار رابطہ سڑکوں کی صف میں ہورہا ہے ، رہائشی کالونیوں کی سڑکوں میں ہوتا ہے یا گلی کوچوں کے ساتھ ساتھ اہم شاہرائوں میں کیاجارہاہے ا ن کی خستہ حالی خود اپنا حال بتارہی ہے۔ رہائشی کالونیوں کی تعمیر وتجدید بے شک بے ربطی اور بے ڈھنگ سے کی جاتی رہی ہے اور لو گ خود ہوس گیری اور خود غرضی میںغرق تعمیرات کے وقت کسی منصوبہ بندی کو اہمیت دینے یا ڈرینیج سسٹم کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری نہیں سمجھتے جس کے نتیجہ میں انہیں بعد میں آنے والے دنوں میں خود پریشانیوں اور دشواریوں کا بھی سامنا کرنا پڑرہاہے۔ لیکن اس بد نظمی اور بے ہنگم تعمیرات کے لئے وہ اکیلے ذمہ دارنہیں ہیں بلکہ وہ ادارے سرکاری یا نیم سرکاری جن کے حدمیں تعمیرات کیلئے اجازت نامے وغیرہ اجراء کرنے کے اختیارات ہیں نہ سنجیدگی کا مظاہرہ کررہے ہیں ، نہ تعمیرات کے وقت کوئی سنجیدہ توجہ مرکوز رکھتے ہیں اور نہ ہی اپنے فرائض دیانتداری سے اداکرتے ہیں۔
سڑکوں کی تعمیر وتجدید رکھ رکھائو کیلئے متعلقہ ادارے کے مختلف ڈویژن ذمہ دار ہیں،ان شعبوں سے وابستہ انجینئر اور اہلکار حضرات مصلحتوں کے غلام ہیں، فنڈز کی دستیابی کے باوجود دیانتداری سے فرائض انجام نہیں دیئے جارہے ہیں۔ یہ بھی مشاہدے میں عموماً آتارہا ہے کہ سڑک کی تعمیر کے محض چند ہفتوں؍مہینوں کے اندر اندر ہی بچھا میکڈم اجڑ تا رہا اور میکڈم کے نیچے کی بچھائی روڑی ؍بجری اپنے تمام ترجلوئوں کے ساتھ لوگوں کا منہ چڑارہی ہیں۔ اس کی اہم ترین وجہ عدم محاسبہ ہے اور سب سے بڑھ کر کورپشن کے زمرے میںکمیشن کی وصولی !
کشمیر کی آبادی کو بحیثیت مجموعی سردی ہویا ایام گرمی، موسم چاہئے کچھ بھی ہو بجلی بحران کا درد سر سہنا پڑرہاہے۔ اس بحران نے پی ڈی ڈی کو اس حدتک بے نقاب کررکھا ہے کہ اب ان کے کسی سچ کو بھی بے اعتبار ہی سمجھا جارہاہے۔ ڈیجیٹل میٹروں کی تنصیب پر تنصیب کے ناعاقبت اندیشانہ فیصلوں او ر اقدامات جن کے تعلق سے کئی سیاسی حلقے بھی اب شکوک کا برملا اظہار کررہے ہیں اور بجلی فیس کی شرحوں میںآئے روز کے بے ہنگم اضافوں اور صارفین پر ڈالے جارہے بوجھ کے باوجود لوگوں کو ان کی مطلوبہ ضروریات کے مطابق بجلی دستیاب نہیں۔
یوٹی کی اپنی پیداوار کے باوجود اس پیداوار پر مخصوص اجارہ داری نے ہی کشمیر کو اب تک کے سنگین ترین بجلی بحران کی دلدل میں دھکیل کررکھاہے۔ فیس کی شرحوں کے بارے میں باربار یہ احسان جتایا جارہا ہے کہ بیرون جموں وکشمیر دیگر ریاستوں میں بجلی فیس کی جو شرحیں مقرر ہیں ان کے برعکس جموںوکشمیر میںصارفین سے بہت کم شرح میں فیس وصول کی جارہی ہے۔
بجلی بحران ہر گذرتے ایام کے ساتھ شدت اختیار کرکے سنگین تر کیوں ہوتا جارہا ہے اس کے بارے میں کئی ایک وجوہات ہیں جو اوسط صارف کی توجہ اور جانکاری میںنہیں ہے۔ حالیہ برسوں کے دوران جس وی آئی پی کلچر کو پروان چڑھایا جاتارہا ہے وہ بھی بجلی بحران میںاضافہ کا موجب بناہواہے کیونکہ اس کلچر سے وابستہ لوگوں کو مفت بجلی ۷x۲۴ بغیر کسی کٹوتی کے فراہم کی جارہی ہے۔ تنصیبات ، جو مختلف نوعیت کی ہیں سے وابستہ لوگوں کو بھی بغیر کوئی فیس ادا کئے بجلی فراہم کی جارہی ہے۔ مفت بجلی کی فراہمی کا یہ حجم روزانہ کتنے میگاواٹ کا ہے اس بارے میں کوئی معتبر تفصیل دستیاب نہیں ہے لیکن بحران کی اہم ترین وجوہات میں یہ دو پہلو کلید بردار کی حیثیت رکھتے ہیں۔