اپوزیشن اتحاد… انڈیا بلاک کے جلسہ عام میں نیشنل کانفرنس کے سرپرست اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور پی ڈی پی کی سرپرست محبوبہ مفتی کی شرکت اور حکمران جماعت کے حکومتی طرزعمل اور جمہوریت مخالف اقدامات کے خلاف تقریروں کاجلسہ عام میں شریک لوگوںنے بھلے ہی تالیاں بجا کر اپنی گرم جوشی کا اظہار کیا ہے لیکن جموںوکشمیر میںکچھ ایک حلقوں کی طرف سے اپوزیشن کے جلسہ میں شرکت کی تنقید اور مذمت یہ کہکر کی جارہی ہے کہ ’’ان جماعتوں کا کوئی سیاسی نظریہ نہیں ہے‘‘ ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تنقید اور مخالفت کرنے والا شخص خود ماضی میں نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی سے وابستہ رہا ہے۔
نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی اپوزیشن اتحاد کی اکائیاں ضرور ہیں لیکن جموں وکشمیر میں الیکٹورل شرکت یا حصہ داری کے حوالہ سے فی الوقت تک یہ باہم گریباں ہیں۔ ملکی سطح پر اپوزیشن بلاک کو اتحاد کی ایک مضبوط لڑی میں پروسنے اور پارلیمانی حلقوں میں اُمیدواروں کو میدان میں جھونکنے کے تعلق سے مشترکہ حکمت عملی اختیار کرکے جیت کو یقینی بنانے کے فتویٰ جاری کئے جارہے ہیں لیکن جموںوکشمیرمیں پارلیمانی حلقوں کی تقسیم یا شراکت داری کے تعلق سے کوئی ایک انچ بھی زمین چھوڑنے کے لئے تیار نہیں۔ آنیوالے کچھ دنوں میں یہ تنازعہ حتمی طور سے کیا شکل وصورت اختیار کرے گا اُس پر نظر رہیگی البتہ اس معاملے سے جڑے دوسرے کئی سوالات پر یشان کن بھی ہیں البتہ عوامی حلقوں کی دلچسپی اور توجہ کا مرکز ضرور ہیں۔
لیکن اپوزیشن اتحاد کے جلسہ میں شرکت یا اتحاد کی بطور اکائیاں بنے رہنے کے حوالہ سے حکمران جماعت بی جے پی کی مخالفت،تنقید یا برہمی تو سمجھ میں آسکتی ہے اور ان کے تعلق سے قدرے جائز بھی ہے لیکن کشمیر نشین کچھ سیاسی جماعتوں کی طرف سے مخالفت یہ کہکر کہ ان کا کوئی سیاسی نظریہ نہیں ہے قابل فہم نہیں ہے۔ مخالفت یا تنقید کرتے وقت کس سیاسی نظریہ کی بات کی جارہی ہے۔اس کی وضاحت تو نہیں کی گئی ہے البتہ مخالفت کا بیانیہ سامنے لاکر انہوںنے اپنے بارے میں اس عوامی عمومی تاثر کی تصدیق کی ہے کہ وہ حکمرا ن جماعت کے قریب ہیں یا اس کے لئے کام کررہے ہیں۔ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی تو عرصہ سے یہی کہہ رہی ہے کہ ان نئی سیاسی پارٹیوں کی حقیقت اور حیثیت حکمران جماعت کی اے ، بی اور سی ٹیموں کی سی ہے۔
البتہ اس طرح کی مخالفت یا تنقید کرنے کی بجائے یہ پارٹیاں اگر نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی سے یہ سوال کرکے نشانہ بناتی کہ اپوزیشن اتحاد میں شرکت ، اپوزیشن کا ڈھول بجانے اور پانی پی پی کر حکمرا ن جماعت کو کوسنے سے جموں وکشمیر باالخصوص اہل وادی کو حاصل کیا ہوگا، کون سا سیاسی قلعہ واپس حاصل ہوگا،انتظامی اور معاشرتی سطح پر کون سا انحطاط پذیر شعبہ کی بحالی کو ممکن بنایا جاسکتا ہے تو بات بنتی لیکن مخالفت کرنے والی بزرگ سیاسی شخصیت نے بے وزن، بغیر کسی استدلال دلیل اور بے محل ردعمل کو زبان دے کر خود کوہی بے وزن اور دوسرے سیاسی کیمپ کااتحادی ہونے کا اعتراف کرلیاہے۔
دہلی اجتماع کے حوالہ سے دومخصوص دعویٰ منتظمین کی طرف سے پیش کئے گئے۔ ایک اجتماع کا تعلق دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال اینڈ ساتھیوں کی مبینہ شراب سکینڈل میں گرفتاری کے خلاف بطور احتجاج سے ہے۔ دوسرا حکمران جماعت ملک کے آئین، وفاق کی ہیت اور جمہوریت اور جمہوری اداروں کو نقصان پہنچانے کے خلاف ۔ دوسرے وجوہ کا تعلق اور نوعیت سیاسی ہے، سیاسی جماعتوں کا اس حوالہ سے نظریہ اور بیانیہ قابل اعتراض قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ اس کا مجموعی تعلق سیاسی جماعتوں کے نظریہ، موقف اور دوسرے معاملات سے ہے۔ البتہ اروند کیجریوال کی حمایت میں سرینگر سے دہلی تک سفر اور پھر جلسہ میں شرکت بطور اظہار یکجہتی ہی سہی کے آگے سوالیہ ضرورہے۔
پوچھا جاسکتا ہے کہ اروند کیجریوال نے جموںوکشمیرکے تعلق سے کس معاملے پر یہاں کے عوام کی خواہشات، امنگلوں اور احساسات کے احترام میں زبان کھولی، برعکس اس کے کیجریوال نے آئینی ضمانتوں اور آئینی تحفظات کو ختم کرنے یا چھین لئے جانے کا نہ صرف خیر مقدم کیا بلکہ حمایت بھی کی۔ عمر عبداللہ نے بھی اس حوالہ سے اپنے کچھ بیانات میں اس کا اعتراف کیا ہے۔ پھر اس زمینی حقیقت کی جانکاری کے باوجود ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی کا اظہار یکجہتی سیاسی چاپلوسی اور خوشامدی کی بھونڈی اور مضحکہ خیز عمل ہے۔ یہ لوگوں کی توجہ میں ہے کیونکہ لوگ اتنے بے وقوف اور سیاسی گدھے بھی نہیں جتنا کہ عوام کی سیاسی قیادت کے کچھ خودساختہ دعویدار تصور کررہے ہیں۔
جہاں تک پارلیمانی حلقوں میںنیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کی طرف سے ممکنہ طور سے اتارے جارہے اُمیدواروں کے حق میں انتخابی مہم چلانے اور شرکت کرنے کا سوال ہے اپوزیشن اتحاد سے وابستہ لیڈران اپنی کس اکائی کے اُمیدوار کے حق میں شرکت کریں گے جبکہ دونوں اکائیوں کے اُمیدوار مد مقابل ہوںگے؟ کیا کانگریس کی قیادت نیشنل کانفرنس یا پی ڈی پی کے حق میں میدان میں کود پڑے گی جہاں یہ دونوں آپس میں مد مقابل ہوں گے؟ اسی سے جڑا دوسرا سوال یہ بھی ہے کہ کیا نیشنل کانفرنس کی لیڈر شپ باالخصوص عمرعبداللہ اور فاروق عبداللہ کانگریس کے اُمیدوار چودھری لال سنگھ کی انتخابی مہم میں شرکت کریں گے جبکہ دونوں کا موقف لال سنگھ کے بارے میں واضح ہے ۔ اسی طرح کیا محبوبہ مفتی بحیثیت اکائی کے چودھری لال سنگھ کی حمایت میں میدان میں اُتر ے گی جس محبوبہ کی قیادت میں مخلوط حکومت نے لال سنگھ کو رسانہ کٹھوعہ کے سانحہ میں مجرموں کا دفاع کرنے کی پاداش میں چودھری کو وزارتی عہدہ سے چلتا کروایا تھا؟