اپنے کشمیر میں ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں ہے…بالکل بھی نہیں ہے‘ جنہیں یہاں کی صحافت اور صحافیوں پر اعتراض ہے ‘ غصہ بھی ہے… اور ہاں شکوے اور شکایات بھی ہیں… ان میں عام لوگ بھی ہیں اور خاص لوگ بھی ۔لیکن اگر کوئی ہماری سنے تو… تو ہم بڑے ادب سے گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ… کہ کشمیر میں کسی کو بھی صحافیوں کا ملال نہیں ہونا چاہئے اور… اور بالکل بھی نہیں ہو نا چاہئے… اس لئے نہیں ہو نا چاہئے کہ کشمیر میں اب کوئی صحافی ہے اور نہ صحافت … صحافت کو اللہ میاں کو پیارے ہوئے چار پانچ سال ہو گئے ہیں… اس لئے اگر آپ میں سے کسی نے ابھی کشمیر کی صحافت کیلئے دعائے مغفرت نہیں کی ہے‘ فاتحہ نہیں پڑھی ہے تو… تو وہ پڑھ لے ۔ظاہر سی بات ہے کہ کشمیر میں جب صحافت ہی نہیں رہی تو صحافی کہاں سے آٹپکیں گے کہ اب ان کا کشمیر میں کوئی وجود نہیں ہے … یوں سمجھ لیجئے کہ کشمیر میں صحافت اور صحافیExtinctہو گئے ہیں… اور جب کسی کا وجود باقی نہیں رہتا ہے‘ جب کوئی اس دنیا سے تشریف لے جاتا ہے تو… تو عام طور پر ہم اس کا ذکر خیر ہی کرتے ہیں… اس کے عیب نہیں گنتے ہیں ‘ اس لئے امید ہے کہ … کہ آپ بھی عیب نہیں گننے گیں۔رہی بات ان لوگوں کی جنہیں آپ ہاتھ میں مائک لئے دیکھتے ہیں… کبھی فیس بک پر تو کبھی کسی اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر تو بے چارے انہوں نے کبھی صحافی ہونے کا دعویٰ کیا اور نہ انہوں نے کبھی صحافت کی… اور اس لئے نہیں کہ… کہ ان سے صحافت نہیں ہو سکتی ہے… بے چارے یہ سوشل میڈیا پر خود کی مارکیٹنگ کرتے ہیں اور… اور ان کی خوش قسمتی ہے کہ… کہ یہ اُس جگہ اور اُس نظام کے سایے میں رہ رہے ہیں جس نظام نے نہ صرف انہیں قبول کیا بلکہ قبولیت کی سند کے ساتھ ساتھ صحافی ہونی کی بھی سند عطا کی… ان کی حوصلہ فزائی کی… انہیں رسائی فراہم کی … ان کے پنپنے کیلئے ہر ایک سامان مہیا کیا ‘ دستیاب بھی رکھا … اور ظاہر ہے جب کسی کیلئے اتنا کچھ کیا جائے تو… تو اس کا دماغ تو خراب ہو ہی جائیگا … سو ان کا بھی ہوا … اور یہ خود کو صحافی سمجھ ہی بیٹھے یا خود کو صحافی سمجھنے کا گناہ کر بیٹھ گئے ۔ ہے نا؟