اسمبلی الیکشن کے بارے میں چنائو کمیشن کو جو فیصلہ کرنا تھا وہ کرلیا اُس فیصلے کو لے کر جموں وکشمیرکے طول وارض میں جو بحث چل پڑی اس کی کوئی اہمیت نہیں کیونکہ فیصلے کے دفاع یا تنقید میں جو کچھ مختلف نظریات اور موقفوں کی حامل سیاسی جماعتوں نے ردعمل ظاہر کیا ہے اس کا نوٹس لینے والا کوئی نہیں۔
حالات بدل رہے ہیں، پہلے کی بات اور تھی اب کی بات اور ہے، چنائو کمیشن کو بھی ان بدلتے زمینی حالات کا بھر پور ادراک ہے اُسے اچھی طرح سے معلوم ہے کہ ملک کے طول وارض میں لوگوں کیلئے جمہوریت اور جمہوری حقوق کے استعمال اور بروقت تفویض کی اہمیت کیا ہے اور اس تعلق سے عوامی سطح پر سنجیدگی کاگراف کیا ہے جبکہ اسی تعلق سے جموںوکشمیر میں جمہوریت اور اس کے استعمال کی حد کس حد تک ہے ۔ یہ انداز فکر اور طرزعمل آج کی تاریک کا نہیں بلکہ گذشتہ ۷۵؍سالوں سے اسی مزاج کو پروان بھی چڑھایا جاتا رہا ہے اوراستعمال بھی کیاجاتا رہا ہے۔ اب کی بار بھی اگر پھر سے اسی راستے کو عصر جدید کے کچھ تقاضوں کے پیش نظراختیار کیاجاتا ہے تو کون سی قیامت آپ ٹپکے گی۔
نیشنل کانفرنس کے سرپرست ڈاکٹر فاروق عبداللہ جموںوکشمیرکے ایک سینئر سیاستدان ہیں اور انہیں اچھی طرح سے معلوم ہے کہ جموںوکشمیر کے تعلق سے چنائو کمیشن کا اپروچ کیا رہا ہے کیونکہ ذاتی طور سے وہ خود اس اپروچ سے وابستہ بھی رہے ہیں اور عین گواہ بھی۔ لہٰذا اس مخصوص ماضی کے چشم دید گواہ کے طور چنائو کمیشن کے اسمبلی الیکشن پارلیمانی الیکشن کے شانہ بہ شانہ نہ کرانے کے فیصلے پر انہوںنے جس ردعمل کو زبان دی ہے وہ غالباً درست نہیں۔ پھر بھی ان کا کہنا ہے کہ وہ چنائو کمیشن کے اس مخصوص فیصلے سے بد دل اور مایوس ہوئے ہیں اپنے آپ میں اس تناظرمیں کچھ توجہ کا حامل ضرور بنتا ہے کہ جب وہ کہہ رہے ہیں کہ چنائو نہ کرانے کے فیصلے کے پیچھے وہ کسی گڑ بڑھ کو محسوس کررہے ہیں۔
یہ دوسرا سوال ہے کہ یہ گڑ بڑھ کیا ہوسکتی ہے۔ غالباً انہیں معلوم ہے کہ چنائو عمل میں گڑ بڑھ کے طور طریقے کیا ہیں اور انہیں کیسے برئو ے کار لایاجاسکتا ہے ۔ کیونکہ وہ خود ایسے مراحل یا تجربوں سے گذر چکے ہیں۔ البتہ سابق وزیراعلیٰ غلام نبی آزاد کے اس بیان کہ چنائو کمیشن نے جو فیصلہ کیا ہے وہ درست ہے واقعی حیران کن ہیں ،ا س وجہ سے بھی حیران کن ہے کہ وہ اُس مخصوص پینل کا حصہ رہے ہیں جس نے ملک میں بیک وقت چنائو کے تعلق سے سفارشات صدرجمہوریہ کو پیش کی ہیں۔
بہرحال پارٹیوں کا ردعمل متوقع خطوط پر رہا ہے ۔ا لبتہ نیشنل کانفرنس کی جموں اکائی کے ایک لیڈر جو ماضی میںوزیرکے عہدے پر بھی فائز رہ چکے ہیں نے چنائو کمیشن کے اس فیصلے کو بی جے پی کی ایماء پر لیاگیا فیصلہ کے طور پیش کیا ہے۔ چنائو کمیشن کے فیصلے پر مختلف نظریات کی حامل سیاسی پارٹیوں کی طرف سے جو کچھ بھی ردعمل اب تک سامنے آیا ہے اس حوالہ سے کچھ اہم سوالات بھی سامنے آرہے ہیں جبکہ عوامی سطح پر بھی انہی سے ملتے جلتے اور بعض دوسرے سوالات بھی کئے جارہے ہیں۔
مثلاً چنائو کمیشن نے اپنے فیصلے کے دفاع میں یہ واضح کردیا کہ جموںوکشمیر کی ایڈمنسٹریشن نے سکیورٹی وجوہات کی بناء پر بیک وقت الیکشن کے انعقاد کی مخالفت کی اس طرح گیند جموںوکشمیر ایڈمنسٹریشن کی گودمیں پھینک دی ۔ لیکن ناقدین کا جو اب یہ ہے کہ یہی ایڈمنسٹریشن ’سب کچھ ٹھیک ہے‘ کا بار بار اعلان کررہی ہے او رجموں وکشمیرمیں سکیورٹی صورتحال کے حوالہ سے بحیثیت مجموعی اپنی پُر امیدی کا اعلان بھی کرتی رہتی ہے اور اعتراف بھی۔ پھر یہ دوسرا سجدہ کیوں؟
سکیورٹی حصار کی موجودگی کا جہاں تک سوال ہے وہ فل پروف ہے، کوئی چپہ یا ادارہ یا تنصیب ایسی نہیں جہاں سکیورٹی کا فٹ پرنٹ نظرنہیںآرہا ہے ۔لہٰذا لوگوں کی نگاہ میں یہ عذرلنگ اس اعتبار سے بھی قابل قبول نہیں کہ مسئلہ سکیورٹی کا ہے۔ تو کیا فاروق عبداللہ کا یہ خدشہ یا دعویٰ کہ کچھ گڑ بڑھ ہے اس تناظرمیں بلاوجہ نہیں ؟ وقت ہی ثابت کرے گا۔
جموںوکشمیر ایڈمنسٹریشن کے فیصلے پر ردعمل ظاہر کرتے وقت ایک سابق وزیراور فی الوقت ایک سیاسی پارٹی کے قدآور لیڈر نے یہ خیال ظاہر کیا کہ مختلف ریاستوں سے وابستہ بیروکریٹ تمام تر اختیارات کا استعمال کرکے سیاہ وسفید کے مالک ہیں وہ کیوں جموں وکشمیرکے عوام کے جمہوری حقوق کی تفویض کیلئے اپنے ان اختیارات اور دبدبہ سے دستبردار ہونا پسند کریں گے۔
جتنے منہ اتنی ہی باتیں، نچوڑ یہ ہے کہ فی الحال جموںوکشمیر میںجمہوری حقوق کے استعمال اور بقول سیاسی پارٹیوں کے سیلف رول کے قیام کی فی الحال گنجائش نہیں ہے، جب گنجائش نکل آئیگی یا اس کی ضرورت آنے والے ایام میں کسی مرحلہ پر محسوس کی جائیگی تو اس وقت اس کے بارے میں فیصلہ لیاجاسکتا ہے۔ فی الحال الیکشن کے حوالہ سے ضرورت پارلیمنٹ کیلئے نمائندوں کے انتخاب کی ہے۔جموںوکشمیر سے ماضی میں چھ لیکن اب پانچ نمائندگان ایسے تیسے منتخب ہوکر ملک کے اس اعلیٰ ایوان کی دہلیزعبور کرنے میںکامیاب ہوجاتے ہیں۔لیکن ریکارڈ گواہ ہے کہ کشمیر سے اب تک منتخب ہوئے نمائندگان نے کشمیر کے مخصوص معاملات کے تعلق سے کوئی خاص یا توجہ طلب کردارادانہیں کیا ہے۔ کریں گے بھی کیسے، تقریر کرنے یا کوئی مدعا پیش کرنے کیلئے انہیں پانچ منٹ سے زیادہ مہلت نہیں ملتی۔ یہ معاملہ الگ سے توجہ اور بحث کا متقاضی ہے ۔ فوری طور سے یہی کہا جاسکتا ہے کہ موجودہ پارلیمنٹ میں جن نمائندوں نے کشمیرکی نمائندگی کی ان میں سے کم سے کم دو نمائندے اپنے فرائض اداکرنے میں ناکام رہے ۔