لداخی عوام گذشتہ کچھ برسوں سے اپنے کچھ مطالبات کے حق میں برسر جدوجہد ہے۔ کرگل اور لیہہ کی مشترکہ قیادت ان مطالبات کو لے کر اب تک مرکزی قیادت کے ساتھ کئی ملاقاتیں کرچکی ہیں لیکن ابھی تک کسی حتمی حل کی سمت میں کوئی خاص پیش رفت حاصل نہیں کی جاسکی ہے۔
مشترکہ قیادت کا مطالبہ ہے کہ انہیں چھٹے شیڈول کے تحت وہ تمام مراعات اور حقوق تفویض کئے جائیں جو اس شیڈول کے تحت ملک کے مختلف حصوں کی آبادی کو حاصل ہیں۔ یہ مطالبہ بھی کیا جارہاہے کہ جموں وکشمیرکی تقسیم وتنظیم نو کے بعد انہیں یوٹی کا جو درجہ دیا گیا ہے وہ انہیں قبول نہیں بلکہ مکمل ریاست کا درجہ دیاجائے جس کی روشنی میں وہ قانون ساز ا سمبلی کا بھی قیام عمل میں لاسکیں، اپنے لئے حکومت کا انتخاب بھی عمل میں لاسکیں اور سب سے بڑھ کر انتظامیہ میں تعیناتیوں اور تقرریوں کے لئے مقامی آفیسران اور ملازموں کا انتخاب یقینی بناکر ملک کے دور دراز علاقوں سے لائے اور تعینات کئے جارہے آفیسران اور ملازمین کا طریقہ کار ختم ہوسکے۔
ان مطالبات کو حاصل کرنے کیلئے ایک سرکردہ سماجی کارکن کی قیادت میں کچھ لوگ کچھ دنوں سے بھوک ہڑتال پر ہیں جن کے ساتھ اب اظہار یکجہتی کی خاطر مہاراشٹر سے کچھ آوازیں بلند ہورہی ہیں۔ لیکن سب سے بڑی آواز کانگریس سے وابستہ گاندھی پریوار کی رکن پرینکا گاندھی کی اب تک سامنے آئی ہے جس نے چند روز قبل لداخ کو ریاست کا درجہ دیئے جانے کے مطالبے کی حمایت کی ہے۔
یہ پہلا موقعہ ہے کہ جب کانگریس کے کسی لیڈر نے ملکی سطح کے پلیٹ فارم سے ایسی کوئی آواز حمایت اور تائید میںبلند کی ہو۔ اگر چہ ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو گذرے اب تک کافی عرصہ گذر چکا ہے لیکن اس ساری مدت کے دوران کانگریس یا اس کے کسی لیڈر نے لداخ کے مطالبے کے حق یا مخالفت میںکوئی بات نہیں کی لیکن اچانک پرینکا گاندھی حمایتی بیان کے ساتھ میدان میںکود گئی، غالباً پارلیانی انتخابات کی مصلحت ہی سمجھی جارہی ہے جو اس بات کی طرف بھی واضح اشارہ ہے کہ پارٹی لداخ کے پارلیمانی حلقے سے اپنے اُمیدوار کو میدان میں اُتارنے کے پر تول رہی ہے۔
پرینکا گاندھی یا کانگریس نے لداخی او رکرگلی عوام کے اس مخصوص مطالبے کی حمایت میںآواز دیر سے ہی سہی بلند تو کی لیکن اسی سے مماثلت مطالبہ جموں وکشمیر سے بھی سامنے آتارہا ہے لیکن اس کے حق میں ابھی تک کانگریس کے کسی مرکزی لیڈر نے زبان نہیں کھولی اگر چہ وقفے وقفے سے اس پارٹی کے کچھ مقامی لیڈر ریاستی درجہ کی بحالی اور اسمبلی الیکشن کے انعقاد کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔
کانگریسی لیڈر پرینکا گاندھی کے لداخی عوام کے مطالبے کی حمایت میں بیان کا بحیثیت مجموعی خیر مقدم کیا جاناچاہئے لیکن ایسا کرتے ہوئے یہ احساس بھی دامن گیر ہونا فطری ہے کہ جموں وکشمیر کے تعلق سے کانگریس کی مرکزی سطح پر خاموشی یا زبان بندی کیوں؟اسی نوعیت کا دوہراپن کانگریس پارٹی اور اس کی قیادت کا جموںوکشمیر کے تعلق سے خاصہ رہا ہے ۔ ماضی کی تاریخ پارٹی کے اسی خاص دوہرے اپروچ کے تعلق سے بھری پڑی ہے، پہلے دوستی کی آڑمیں اشتراک عمل کی ترغیب، پھر ہمالیائی حجم کی یقین دہانیوں اور آئینی تحفظات کے ساتھ ساتھ عوام کی تاریخ کی روشنی میںان کے منفرد تشخص کا تحفظ اور سیاسی خواہشات اور احساسات کی سمت میں باوقار احترام ایسے وعدوں کی سوغات اور پھر جب مشن اور ایجنڈا کو مکمل ہوتے دیکھاگیا تو پھرا لٹے قدموں واپسی کا عمل اپنی تمام تر خصلتوں ، فطرتوں اور سازشانہ مصلحتوں کے ساتھ اپنے مقامی زرخرید کٹ پتلیوں کے عملی تعاون سے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے راستوں پر گامزنی پارٹی لیڈر شپ کا ہی خاصہ رہا ہے۔
اس دوہرے طرزعمل کے تناظرمیں پرینکا گاندھی کا بیان حیران کن نہیں کانگریس ملک کے مختلف حصوں کے تعلق سے اسی معیار کو اپنا تی رہی ہے اوراس کا یہی دوہرا میعار اور طرزعمل اس کی شکست پر شکستوں بلکہ کانگریس مکت بھارت بُنیادی وجوہات میںایک اہم وجہ تصور کیاجارہا ہے ۔ اگر چہ کانگریس کے ایک سابق لیڈر غلام نبی آزاد اپنے ایک حالیہ بیان میں کانگریس کے کمزور پڑنے یا قریب الاختتام ہوجانے کی دہلیز پر دستک دکھائی دینے کی وجوہات میںبعض کانگریسی لیڈروں کی احمقانہ اور بدبختانہ طرزعمل کو ذمہ ٹھہرا رہے ہیں لیکن جموںوکشمیرکے مخصوص تناظرمیں بات کی جائے یا محض سرسری تجزیہ کیاجائے تو یہ بات بغیر کسی مبالغہ آرائی کے کہی جاسکتی ہے کہ پارٹی کا یہ طرز عمل کشمیر کی آبادی پر بہت پہلے واضح ہوا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کانگریس کشمیرمیں اپنے قدم نہیں جماسکی بلکہ اس کے قدم اس کے کچھ مقامی لیڈروں کی ہی دہلیز وں یا صحنوں تک محدود رہے۔ انتخابی عمل کے حوالہ سے بھی کہاجاسکتا ہے کہ اس کے نام پر جو کچھ کامیاب ہوتے رہے وہ کامیابی ان مقامی لیڈروں کی اپنی قد آوری یا اثرورسوخ کی مرہون منت رہی ہے نہ کہ پارٹی کی کسی عوامی مقبولیت کا ثمرہ!
آپ تاریخی واقعات کو اپنی من مرضی اور من چاہی مصلحتوں اور ضرورتوں کے پیش نظر سیاق وسباق سے ہٹ کر اور توڑ مروڑ کرکوئی نیا لبادہ پہنا کرپیش تو کرسکتے ہیں لیکن تسلیم شدہ امر یہ ہے کہ تاریخی حقائق مٹائے نہیں مٹتے اور نہ ہی نئے سرے سے تاریخ رقم کرنے سے ماضی کاکوئی پہلو تاریکیوں کی نذر کیا جاسکتا ہے۔