اعلیٰ چنائو کمشنر کی قیادت میں چنائو کمیشن کا ایک اعلیٰ اختیاری وفد جموں وکشمیر کے دو روزہ دورے پر ہے، الیکشن کے حوالہ سے وفد نہ صرف مختلف امورات کے حوالہ سے تیاریوں کا تفصیلی جائزہ لے گا بلکہ سکیورٹی صورتحال کے ساتھ ساتھ مختلف سیاسی پارٹیوں کے رہنمائوں کے ساتھ بھی تبادلہ خیال کرے گا۔
بظاہر یہ دورہ پارلیمانی انتخابات کے تعلق سے ہورہا ہے لیکن سیاسی پارٹیوں نے ممکنہ ملاقات سے قبل ہی یہ واضح کردیا ہے کہ وہ وفد کے ساتھ اسمبلی کے انتخابات کے التواء شدہ معاملے پر بھی اپنی آراء سے وفد کو آگاہ کر ے گا۔اس تعلق سے اہم سوال یا بڑا نکتہ جو بطور دلیل پیش کیاجارہا ہے یہ ہے کہ اگر پارلیمانی الیکشن کے لئے ماحول موافق ہے، سکیورٹی بندوبست بھی اطمینان بخش ہے، جموںوکشمیر ایڈمنسٹریشن اور سکیورٹی ایجنسیوں کا بھر پور اشتراک اور عملی معاونت دستیاب ہے تو پھر اسمبلی الیکشن ساتھ ساتھ کیوںنہیں؟
سیاسی پارٹیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر خود الیکشن کمیشن اس بات کا اعتراف کرچکا ہے کہ الیکشن کے عدم انعقاد کے نتیجہ میں خلا محسوس کیاجارہاہے اور واضح طور سے نظربھی آرہا ہے تو پھر الیکشن کے عملی انعقاد میںخود الیکشن کمیشن حائل کیوں اور کیوں اور کس مصلحت کے پیش نظرمزاحم ہورہا ہے۔ جبکہ مرکزی سطح پر خود حکومت باربار یہ واضح کرچکی ہے کہ وہ کسی بھی وقت الیکشن کیلئے تیار ہے البتہ فیصلہ الیکشن کمیشن کے ہاتھ میںہے۔
کشمیراور جموں نشین سبھی سیاسی حلقے بھی بار بار یہ واضح کرچکے ہیں کہ وہ اسمبلی الیکشن کے لئے تیار ہیں البتہ فیصلہ چنائو کمیشن کو کرنا ہے۔ اگرواقعی حتمی فیصلہ کا اختیار الیکشن کمیشن کے ہاتھ میں ہے اور ان ہی کی صوابدید پر منحصر ہے تو پھر الیکشن کمیشن کی یہ اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی پوزیشن واضح کرے۔ بتادے کہ اگر پارلیمانی چنائو کیلئے جموںوکشمیر کا ماحول موافق ہے اور کسی قسم کی رکاوٹ یا مسئلہ درپیش نہیں ہے تو اسمبلی الیکشن کے انعقاد کی راہ میں وہ خود کیوں مزاحم ہورہا ہے یا دوسرے الفاظ میں کیوں فیصلہ نہیں کرپارہاہے۔ کیا کوئی ان دیکھا ہاتھ اس کو اشارہ کررہا ہے کہ ابھی نہیں یا اور کوئی سیاسی یا غیر سیاسی مصلحت راہ میں حائل ہے۔
آخری الیکشن۲۰۱۴ء میں ہوئے اور تب سے اب تک دس سال بیت گئے۔ ان بیتے دس برسوں کے دوران ملک کی مختلف ریاستوں میں اسمبلیوں کے مکمل یا ضمنی الیکشنوں کا خیر وعافیت کے ساتھ بلکہ تمام تر جمہوری مزاج کے دائرے میں رہ کر انعقاد عمل میںلاکر کروڑوںرائے دہندگان کے جمہوری حق کا نہ صرف تحفظ یقینی بنایا جاتا رہا بلکہ اس جمہوری حق کا آزادانہ اظہار کے مواقع بھی دستیاب رکھے جاتے رہے۔لیکن جموںوکشمیرکی ڈیڑھ کروڑ کی آبادی کو مسلسل اس آئینی اور جمہوری حق سے محروم رکھاجارہاہے۔
کیایہ ناانصافی نہیں، عوام کے ساتھ زیادتی نہیں، لوگوںکو ان کے جمہوری حق سے محروم رکھ کر چنائو کمیشن اور دوسرے فیصلہ ساز ادارے آخر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں جبکہ تاریخ کے تناظرمیںاس زمینی حقیقت سے ہر کوئی باخبر ہے کہ ماضی میں اسی چنائو ی عمل کے ساتھ بار بار جب اندھی سیاسی مصلحتوں کے پیش نظر کھیلا جاتارہا، فراڈ اور دھاندلیوں کے راستے اختیار کئے جاتے رہے تو پھر ردعمل میں کن حالات کا سامنا کرنا پڑا اور زمین پر کیا کچھ پیش آتارہا۔
حساس اور سنجیدہ حلقے اس ماضی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اُمید کررہے ہیں کہ جموںوکشمیر کے تعلق سے ماضی کی اندھی سیاسی مصلحتوں، انتظامی حماقتوں اور بدبختانہ طریقہ کار کو پھر سے آزمانے یا دہرانے کی حماقت نہیں کی جائیگی کیونکہ بڑی مشکل اور بے مثل قربانیوں کے بعد حالات کو پُر سکون بنایا گیا ہے۔
اگرچنائو کمیشن سمجھتا ہے کہ اس کی آئینی، خودمختار، فیصلہ ساز اور آزاد رتبہ برقرار اورمحفوظ ہے تو اس کیلئے لازم ہے کہ وہ یا تو پارلیمانی انتخابات کے شانہ بشانہ اسمبلی انتخابات کا انعقاد یقینی بنائے یا پھر دوسری صورت میں سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں آئندہ ستمبر سے قبل اسمبلی انتخابات کی سمت میں اپنے انتظامات کو حتمی شکل دے تاکہ کمیشن پر مختلف حلقوں کی جانب سے جو تنقید کی جارہی ہے اور مختلف قیاس آرائیوں کو زبان دی جارہی ہے وہ تھم سکیں۔
جموںوکشمیر میں اسمبلی انتخابات کا انعقاد چنائو کمیشن کی طرف سے نہ کسی رعایت کے زمرے میں آتا ہے اور نہ ہی یہ عوام پر کوئی احسان ہے بلکہ یہ لوگوں کا آئینی اور جمہوری حق ہے جس کو فی الحال الیکشن کمیشن گذشتہ چند برسوں سے چھین رہا ہے اور اس چھین لینے پر بضد بھی ہے ۔ جموں وکشمیر کے معاملات کے حوالہ سے یوں بھی چنائو کمیشن کا ریکارڈ صاف ستھرا نہیںسمجھا جارہا ہے ماسوائے اُس ایک چنائو کے جو ۱۹۷۷ء میں وزیراعظم آنجہانی مرار جی ڈیسائی کی ذاتی مداخلت کے نتیجہ میں ہوئے، باقی کم وبیش سبھی انتخابات کے بارے میں کوئی نہ کوئی رائے، کوئی خیال، کوئی نہ کوئی قصہ اور کہانی کہی اور باربار سنائی دیتی رہتی ہے۔ اب کی بار اسمبلی انتخابات کو عمل میں لاکر خود چنائو کمیشن مختلف سیاسی اور غیر سیاسی حلقوں کی زبردست تنقید کی زدمیں ہے اور اُس کے آزادانہ کردار کے آگے بھی اب سوالیہ لگائے جارہے ہیں۔
ان سوالیہ نشانوں کو اپنے ماتھے سے ہٹانے کی ذمہ دار خود چنائو کمیشن کے ہاتھ میں ہے جبکہ جموںاورکشمیر کے لوگ صرف ایک سوال کررہے ہیں کہ کیوں چنائو کمیشن انتخابی عمل کی راہ میں حائل ہے،اگراس کے پاس پارلیمانی چنائو کرانے کا اخلاقی جواز اور دلیل موجود ہے تو اسمبلی کیلئے انتخابات کے حوالہ سے اس کا وہ اخلاق اور دلیل کہاں جاکر کنبھ کرن کی نیند سوجاتی ہے۔