کشمیر اور جموں نشین سیاسی پارٹیوں نے الیکشن میدان میں کود نے کیلئے اپنے لنگر لنگوٹے کسنا شروع کردیئے ہیں۔ کچھ پارٹیوں نے انتخابی میدان میں اُتارنے کیلئے اُمیدواروں کا اعلان کردیا ہے جبکہ کچھ اپنے اپنے ہائی کمان کے اشاروں کی منتظر ہیں۔ لیکن الیکشن کے حوالہ سے جو منظرنامہ کچھ کچھ نزدیک اور کچھ کچھ قیاسات کے حوالہ سے محسوس اور نظرآرہاہے وہ ابھی دھندلاسا ہے۔ البتہ ہر اعتبار او رہر زمینی حقیقت کے تناظرمیں تقسیم نمایاں ہے۔ اس تقسیم کے دلدل سے جو سرخ رو ہوکر نمودار ہوگا غالباً وہی وقت کا سکندر کہلائے گا۔
سجاد غنی لون کی قیادت میں پیپلز کانفرنس نے بارہمولہ…کپوارہ حلقہ کے لئے پارٹی صدر سجاد غنی لون کو بطور اُمیدوار نامزد کردیا ہے۔ جموں وکشمیر میں پانچ پارلیمانی حلقوں میں سے یہ مخصوص حلقہ کئی اعتبار سے حساس بھی ہے ، جغرافیائی حدود کے حوالہ سے بے حد اہمیت کا حامل ہے جبکہ رائے دہندگان کی ہیت ترکیبی کے ہوتے اس حلقے کا مطلع اب نہ صرف تقسیم درتقسیم کے خانوں اور وفاداریوں اور وابستگیوں میں بٹ چکا ہے بلکہ حالیہ برسوں میں مختلف نظریات اور موقفوں کی حامل سیاسی وابستگیوں کی نذر بھی ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
اس اعتبار سے جو بھی اور جب کسی پارٹی کے اُمیدوار اس حلقہ سے آپس میں قسمت آزمائی کیلئے میدان میں اُتریں گے یا اُتاریں جائینگے ان کیلئے یہ میدان سرکرنا جو ئے شیر لانے کے ہی مترادف ثابت ہوسکتا ہے۔یہی وہ حلقہ ہے جس کو سر کرنے کیلئے خواہش مند میدان میں اُترنے کے پرتول رہے ہیں۔ سابق نائب وزیراعلیٰ مظفرحسین بیگ بحیثیت آزاد اُمیدوار الیکشن لڑناچاہتے ہیں لیکن کچھ سیاسی حلقے یہ ماننے کیلئے تیار نہیں کہ ان کی حیثیت آزاد ہوگی بلکہ انہیں یہ یقین ہے کہ مرکز میں حکمران جماعت بی جے پی کی آشیرواد اور بھر پور حمایت حاصل ہوگی۔
اس مخصوص حلقے سے بیگ کی امکانی کامیابی کیلئے کچھ عوامل کو بطور اتمام حجت کے پیش کیا جارہاہے۔ حکومت نے ابھی کچھ ہی ہفتے قبل پہاڑیوں وغیرہ طبقوں کو مخصوص زمرہ عطاکرکے ان کی دیرینہ مانگ اور خواہش پوری کرلی ہے۔ اس حلقے میں اس طبقے کی اچھی خاصی آبادی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ ان کاووٹ ، جس کسی بھی حجم کا ہے، بیگ کی ہی کھاتے میں پڑے گا۔
نیشنل کانفرنس محمداکبر لون کو گذشتہ پارلیمانی الیکشن میں میدان میں اُتارکر اس حلقے کو اپنے نام کرچکی ہے جبکہ اس سے قبل بھی نیشنل کانفرنس اس حلقے سے کامیابی بٹورتی رہی ہے۔ اب کی بار پارٹی کا اُمیدوار کون ہوگا اُس بارے میں کوئی عندیہ نہیں ہے البتہ ہندوارہ سے چودھری محمدرمضان کا نام لیاجاتارہا ہے لیکن عمر کے کچھ تقاضے ہیں جو اس راہ میں حائل ہوسکتے ہیں۔
اگر پی ڈی پی کے ساتھ کوئی مفاہمت نہ ہوسکی تو اُس صورت میں اس پارٹی کا بھی کوئی نہ کوئی اُمیدوار میدان میں آجائے گا جبکہ گذشتہ کچھ برسوں سے نظربند سابق ممبر اسمبلی انجینئررشید کے ساتھی ان کے بارے میں پہلے ہی اعلان کرچکے ہیں کہ انجینئر آزاد کی حیثیت میں اس حلقہ سے اُمیدوار ہوں گے۔ یہ وہ میدان ہے جس کو سر کرنے کیلئے اور بھی کئی دوسرے لائن میںکھڑے دکھائی دے رہے ہیں۔ اگر چہ وہ بڑے نام نہیں لیکن دوسروں کا ووٹ کاٹنے کیلئے وہ میدان میں اُتر سکتے ہیں چاہے وہ یہ ووٹ اپنے محلے، اپنی بستی ، اپنے رشتے اور احباب ہی کے اپنے حق میں کریں لیکن محفل خراب کرنے کیلئے انہیں اس کردار کا حامل ضرور سمجھا جارہاہے۔
یہ اور اس سے ملتا جلتا منظرنامہ صرف کپوارہ…بارہمولہ حلقے تک ہی محدود نہیں ہے اور نہ رہ سکتاہے بلکہ کشمیرکے حوالہ سے سبھی تینوں حلقوں کا حال احوال یہی ہے۔ ہرحلقہ رائے دہندگان کی قوت اور حجم کے تعلق سے تقسیم ہوچکا ہے ، مختلف سیاسی نظریات کے حامل افراد کا جو کچھ بھی نریٹو ہے وہ ان کی ذات سے تعلق یا وابستہ ہے اس کا تعلق کشمیر سے نہیں ہے۔
کشمیر کے سیاسی منظرنامہ کو مختلف طریقوں سے گہن زدہ کردیاگیا ہے ۔ کشمیر کا اب نہ کوئی موقف، رہا ہے اور نہ کوئی متفقہ نریٹوکشمیر اور کشمیری عوام ترقیاتی سفر کیسے طے کریں، صحت، تعلیم ، زراعت ،ہارٹیکلچر ، افرادی قوت کی نشوونما، بجلی ،پانی ، سڑک ، روزی روٹی اور مکانیت کے حوالہ سے جو چیلنج سالہاسال سے درپیش ہیں۔ اُن سے کیسے نمٹا جاسکتا ہے اس حوالہ سے کسی بھی ایک سیاسی پارٹی کے پاس کوئی واضح ، ٹھوس اور قابل عمل روڈ میپ نہیںہے، بس فکر ہے تو صرف کہ کب الیکشن ہوں تاکہ اقتدار کی لیلیٰ ان کے گلے کا ہار بن سکے۔
بہرحال کشمیرمیں واقع پارلیمانی حلقوں کا منظرنامہ یکسر تبدیل ہوسکتا ہے اگر کچھ مفاہمت کے ماحول کو موقعہ دیاجائے۔ اس حوالہ سے نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمرعبداللہ کا پی ڈی پی کے تعلق سے موقف اور اپروچ سنجیدہ فکر سیاسی حلقے پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھ رہے ہیں بلکہ ان کے اس اپروچ کو انانیت سے عبارت ضد اور ہٹ دھرمی تصور کررہے ہیں۔ اگر پی ڈی پی بھی اپوزیشن اتحاد کا حصہ اور کائی ہے تو بحیثیت اکائی کے اس کو بھی حصہ ملنا چاہئے اور اس کی خواہش اور سیاسی ضروریات کا بھی اتحاد کی دوسری اکائی کیلئے واجب الاحترام ہونا چاہئے۔
فی الحال مرکز میں قائم حکمران بی جے پی کا جموں کے تعلق سے ماحول اپنے حق میں ہے البتہ کٹھوعہ پارلیمانی حلقے کے تعلق سے پارٹی کو کچھ خدشات لاحق ہوچکے ہیں۔ جموں کے دو حلقوں کے تعلق سے کانگریس بھی اپنا اچھا خاصہ اثر ورسوخ رکھتی ہے، جو کچھ بھی ہے ان دونوں حلقوں میںبی جے پی اور کانگریس کے درمیان کاٹنے کی ٹکر دیکھنے کو مل سکتی ہے۔