بتائیے صاحب اب آپ اس کو کیا کہیں گے کہ… کہ ہماری سمجھ میں تو کچھ بھی نہیں آرہا ہے کہ ہم اسے کیا کہیں …اسے کیا نام دیں … اسے ہم کانگریس کی ہار اور بی جے پی کی جیت کہیں… اسے ہم جمہوریت اور منڈیٹ کا خون کہیں… اسے ہم کانگریس کی نا اہلی اور بی جے پی کی چالاکی کہیں یا کچھ اور کہ… کہ ہم سمجھ نہیں پا رہے ہیں کہ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ ہماچل پردیش میں کانگریس ‘جس کے پاس ممبران کی اکثریت تھی‘ وہ راجیہ سبھا سیٹ ہار جائے اور… اور بی جے پی جو اکثریت اور مطلوبہ تعداد کے قریب بھی نہ تھی پہلے اس نے اپنا امیدوار میدان میں اتاردیا اور… اور پھر میدان بھی مار لیا … یہ کیسے ممکن ہوا … کیسے کانگریس کے ۶ ممبران اسمبلی باغی ہو گئے… کیسے انہوں نے کراس ووٹنگ کی… کیسے انہوں نے پارٹی وہپ کو نظر انداز کیا… کیسے انہوں نے ووٹنگ کے ایک دن پہلے عشائیہ میں کانگریس کے امیدوار‘ ابھشیک سنگھوی کو اپنی حمایت کا یقین دلایا اور پھر کیسے اگلی صبح ان کے خلاف ووٹ دیا…تین آزاد امیدواروں کا بی جے پی کے امیدوار کے حق میں ووٹ دینا تو سمجھ آرہا ہے… لیکن… لیکن صاحب کانگریس کے ان چھ امیدواروں کی بغاوت سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ… کہ بات یہیں پر نہیں رک گئی ہے… بالکل بھی نہیں رک گئی ہے بلکہ اب بی جے پی ہماچل میں کانگریس کی حکومت کیخلاف اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک لانے کی بات کررہی ہے اور… اور اس سلسلے میں اس نے راج بھون سے بھی رجوع کردیا ہے… یقینا ایسا وہ اس لئے کررہی ہے یا کر سکتی ہے کیونکہ اب اسے کانگریس کے ۶ اور تین آزاد امیدواروں کی حمایت حاصل ہے… لیکن جو ایک بات ہم نہیں سمجھ رہے ہیں اور… اور بالکل بھی نہیں سمجھ رہے ہیں کہ ہماچل میں جو کچھ بھی ہوا اور ہو رہا ہے اور ہونے جارہا ہے… اسے کیا نام دیا جائے … اسے کیا عنوان دیا جائے کہ… کہ یہ جو کچھ بھی ہوا … اور جو کچھ بھی ہورہا ہے یا ہونے جا رہا ہے یہ سب کچھ ہو سکتا ہے لیکن… لیکن جمہوریت نہیں اور بالکل بھی نہیں کہ… کہ اس سے پہلے بھی ہم نے یہ ملک کی کچھ دیگر ریاستوں میں ہوتے دیکھا جہاں کانگریس نے الیکشن میں کامیابی حاصل کی تو تھی…حکومت بھی بنائی … لیکن …لیکن یہ حکومت اپنی معیاد مکمل نہیں کر پائی اور… اور اللہ میاں کی قسم ہماچل میں بھی کچھ ایسا ہی ہونے والا ہے۔ ہے نا؟