پاکستان کی قومی اسمبلی اور چار صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کامرحلہ اپنے اختتام تک پہنچ گیا ہے، نتائج آہستہ آہستہ سامنے آرہے ہیں ،اگلے ۲۴؍ گھنٹے اس تعلق سے اہم ہیں اور معلوم ہوگا کہ کس کے گلے میںپاکستان کی صدارت او ر وزیراعظم کا ہار پہنایا جاتا ہے۔
اگر چہ عمران خان کی پارٹی الیکشن سے باہر رہی لیکن ان کے حمایت یافتہ آزاد اُمیدواروں نے میدان مارنے میں حیران کن کامیابی حاصل کرلی ہے۔ جیل کی چار دیواری کے پیچھے عمران خان کا ایک پیغام سوشل میڈیا پر ہے جس میںوہ دعویٰ کررہے ہیں کہ ان کے حمایت یافتہ اُمیدوار بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے ہیں جن کی کامیابی کا سہرا انہوںنے عوام کودیا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ ان نتائج کو تبدیل کیاجارہاہے۔
پاکستان کے ان انتخابات کے بارے میں یوروپی یونین ، امریکہ ، برطانیہ اور ہیومین رائٹس واچ نامی ادارے نے خدشات اور تشویشات کا اظہار تو کیا ہے لیکن پاکستانی فوج اور الیکشن کمیشن نے ان خدشات اور دعوئوں کو مسترد کردیا ہے اور ان بڑے سیاستدانوں کی شکست کی طرف اشارہ کیا ہے جو پاکستانی سیاست میں بہت بڑے نام اور قبلہ رکھتے ہیں۔ بہرحال یہ بات سبھی تسلیم کررہے ہیں اور اس پر کسی حد تک اتفاق بھی پایا جارہا ہے کہ اس الیکشن میں فوج کا بہت بڑے پیمانے پر عمل دخل رہا ہے اور اب غالباً حکومت کی تشکیل میں بھی فوج کی چاہت حرف آخر کی حیثیت رکھتی ہے۔
عمران خان کے حمایت یافتہ آزاد اُمیدوار تو کامیاب ہوئے لیکن آنے والے چند دنوں میں اس پر نگاہ رہیگی کہ آیا کیا وہ اپنی اس حیثیت کا تحفظ کریں گے یا مختلف پارٹیوں سے وابستہ ہوکر اپنے لئے نئی شناخت کا راستہ اختیار کریں گے۔ فی الوقت مسلم لیگ (ن) اپنی جیت کا دعویٰ کررہی ہے اور اس کے لیڈر نواز شریف نے دوسری کامیاب جماعتوں کو حکومت سازی میں شمولیت کی دعویٰ دی ہے اور کہا ہے کہ یہ وقت لڑائی کا نہیں ہے اور نہ ہی فوری طور سے ایک اور الیکشن کا متحمل ہوسکتا ہے۔
جو لوگ پاکستان کے اندر اور پاکستان سے باہر پاکستانی سیاست، فیصلہ سازی، حکومتوں کی تشکیل وغیرہ کے حوالہ سے فوج کی مداخلت یا عمل دخل کے حوالہ سے انگلیاں اُٹھارہے ہیں وہ پاکستانی سیاست اور ۷۵؍سالہ سیاسی منظرنامے کو نظرانداز کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ قیام پاکستان کے پہلے ہی دن سے پاکستانی فوج ملکی معاملات ، خارجہ اور داخلی پالیسیوں ، فیصلہ سازی ، حکومتوں کی تشکیل اور حکومتوں کو اقتدار سے بے دخل کرنے ایسے معاملات پر حاوی رہی ۔آزادی کے بعدسے اب تک کی نصف مدت مارشل لاء کے تحت فوجی حکومتوں کے تحت گذری ہے لہٰذا موجودہ الیکشن اور ان کے نتائج کے تناظرمیں فوج کی طرف انگلی اُٹھانا حیرانگی کا موجب نہیں ہونا چاہئے بلکہ اس عمل دخل کوپاکستان کے مخصوص سیاسی منظرنامہ کا لازم وملزوم حقیقت سمجھ کر قبول کرنا چاہئے بالکل اُسی طرح جس طرح بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی قیادت میں حکومت کی پشت پر وہاں کی فوج ، عدلیہ اور دوسرے فیصلہ ساز ادارے ہیں۔
اس تصویر کا ایک اور رُخ بھی ہے جو پاکستان کے ارد گرد اس کے ہمسایوں کے ساتھ اس کے تعلقات کے تعلق سے وابستہ ہے۔ پاکستان کے حساس سیاسی اور عوامی حلقے اس بات کی طرف بار بار اشارہ کررہے ہیں کہ عمران دورمیںپاکستان کا اس کے مخصوص ہمسایوں کے ساتھ ہی تعلقات خراب یا کشیدہ نہیں ہوتے رہے بلکہ بعض دوست ممالک کے ساتھ بھی اس کے دیرینہ تعلقات خراب ہوتے رہے ۔ اس مخصوص پس منظرمیںہندوستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات سرد ہو یا گرم خطے کی سلامتی، امن ، تجارت عوام سے عوام کے ساتھ رابطے وغیرہ شعبوں کے حوالوں سے بے حد حساسیت اور اہمیت کے حامل سمجھے جاتے ہیں۔ عمران پر مسلسل الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ اس نے نیا پاکستان کے قیام کے نام پر سارے ہمسایوں کے ساتھ تعلقات بگاڑ کے رکھدئے۔ صرف افغانستان کی طالبان حکومت کے ساتھ کسی حد تک تعلقات دوستانہ رکھے اور اس دوستی کو بنائے رکھنے کیلئے اس نے چالیس ہزار ان پاکستانیوں کو صوبہ میں پناہ دی جن کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا رہا کہ وہ پاکستان تحریک طالبان سے وابستہ دہشت گرد ہیں جبکہ واپسی کے ساتھ ہی انہوںنے اپنی دہشت گردانہ سرگرمیوں کا پھر سے آغاز کردیا۔
عمران کے برعکس نواز شریف کے بارے میں یہ حلقے یہ حسن زن رکھتے ہیں کہ وہ اپنے ہمسایوں کے ساتھ بہتر تعلقات کے حامی ہیں۔ اس حوالہ سے ان کی اور وزیراعظم ہند نریندرمودی کے درمیان آپسی تعلقات کا بھی حوالہ دیا جارہا ہے۔ یہ حلقے یہ اُمید کررہے ہیں کہ اگر نواز شریف اقتدارمیںآتے ہیں تو کم سے کم ہندوستان کے ساتھ تعلقات میں کچھ حد تک سدھار آسکے گا۔ آر پار کاروبار اور تجارت پر عائد بندشیں رفتہ رفتہ کم پڑتی جائیگی جبکہ کشمیر میں لوگوں کی اکثریت یہ توقع رکھتی ہے کہ سرحد کے اُس پار سے دراندازی کے واقعات میں کچھ حد تک نرمی واقع ہوسکتی ہے جبکہ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات پر بھی قابو پائے جانے کی اُمید کی جاسکتی ہے ۔ نواز شریف اس تعلق سے پہلے ہی اپنے ہمسایوں کے ساتھ بہتر اور مساوی بُنیادوں پر تعلقات کے قیام کی اپنی خواہش ظاہر کرچکے ہیں۔
ویسے بھی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کاروبار اور تجارت مکمل طور سے بندنہیں ہے ۔ زمینی راستے سے کوئی تجارت نہیں ہورہی ہے البتہ فضائی راستوں سے دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی تعلقات برقرار ہیں۔ اس جانب ابھی چند ہی روزقبل پارلیمنٹ میں ایک سرکاری بیان دیاگیا جس میںاس بات کااعتراف کیاگیا ہے کہ ہوائی راستوں سے تجارت ہورہی ہے اگر دونوں ملکوں کے درمیان کاروبار اور تجارت بحال ہوسکا تو اس کا لازمی اور مثبت اثرپاکستان کے لوگوں پر پڑے گا جو اس وقت شدید معاشی بحران اور کساد بازاری سے جھوج رہے ہیں۔