منگل, مئی 13, 2025
  • ePaper
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
No Result
View All Result
Home اداریہ

بجلی بحران کی آڑمیں کردارکشی 

مرکزی الاٹمنٹ کے باوجود بحران بے قابو

Nida-i-Mashriq by Nida-i-Mashriq
2024-01-03
in اداریہ
A A
آگ سے متاثرین کی امداد
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail

متعلقہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

جموںوکشمیر باالخصوص کشمیر وادی میںبجلی بحران کیوں قابو میں نہیں آرہا ہے، مرکز کی طرف سے معقول مقدار میں بجلی کی الاٹمنٹ کے باوجود یہ بحران کیوں ہر گذرتے دن باالخصوص سرمائی مہینوں کے دوران شدت سے سنگین رُخ اختیار کرجاتا ہے اس کی بُنیادی وجوہات کیا ہیں ان وجوہات کی جانکاری کے باوجود انہیں نادیدہ مصلحتوں کے تحت زبان نہیںدی جارہی ہے بلکہ برعکس اس کے صارفین پر بجلی چوری، ناجائز استعمال، ایگریمنٹ سے زیادہ بجلی کا استعمال، روزمرہ ضروریات کی سمت میں جدید آلات کا استعمال، فیس کی عدم ادائیگی ، ہکنگ کے الزامات روزمرہ کا نریٹو بن چکا ہے اور دانستہ طور سے بھی اس نریٹو کو بار بار دہراکر اس کی سند قبولیت ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
بحران کی اصل وجوہات کیا ہیں ان کی طرف توجہ دلائی جاتی رہی ہے ، نشاندہی بھی کی جاتی رہی ہے لیکن جواب میں کچھ اور ہی بات سامنے لانے کا نہ ختم ہونے والا طریقہ کار جاری ہے۔ ہم برملا طور سے اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ کشمیر کے بہت سارے علاقوں میںہکنگ ہورہی ہے اور میٹر لائن کو بائی پاس کرکے لاتعداد صارفین بجلی کا ناجائزاستعمال کررہے ہیں۔ کشمیر ہو یا جموں بجلی کا سارا نظام خود سرکارکے زیر کنٹرول ہے فی الوقت تک سپلائی نظام کو اوٹ سورس نہیں کیاگیا ہے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ لوگوں کی ہکنگ کا ذمہ دار کون ہے؟ کون اس ہکنگ کی حوصلہ افزائی بھی کررہاہے اور اسے اپنے لئے بالائی آمدن کا ایک آسان زریعہ بھی بنالیا ہے؟ جدید آلات کا استعمال لوگوں کی ایک مجبوری ہے اور موسمی اور جغرافیائی حالات کے حوالہ سے ایک ضرورت بھی ہے۔ لوگوں کی اس جائز ضروریات کی تکمیل کی سمت میں اگر خود ہی محکمہ بجلی اقدامات کرتا یا کئے ہوتے تو جدید آلات کا استعمال ملک کی کمپنیوں، کارخانہ داروں اور فرموں کی مینوفیکچرنگ پر کوئی پابندی نہ ہونے کے باوجود ملک کے اس حصے میں شجر ممنوعہ قرار نہ پاتے۔ بہرحال وہ ایک علیحدہ بحث ہے۔
اس سال وادی میں موسم سرما کی آمد سے کئی ماہ پہلے ہی جزوی کٹوتی اور آنکھ مچولی کے کھیل کا آغاز ہوا حالانکہ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر مرکزی قیادت اس حوالہ سے اعداد وشمارات کے حوالوں سے بیانات جاری کرتی رہی۔مثلا ً گذشتہ سال نومبر تک مرکزی گرڈ سے ۲۷۹۱؍ میگاواٹ بجلی یوٹی کو الاٹ کی گئی اس کے علاوہ مرکزی وزارت توانائی کی جانب سے مزید اضافی بجلی بھی الاٹ کی گئی تاکہ موسم سرما کے ایام میں کمی پر قابو پایا جاسکے۔ دسمبر ۲۳ء کیلئے اضافی ۳۹۳ ؍میگاواٹ الاٹ ہوئے جبکہ رواں ماہ جنوری اور آنے والے ماہ فروری کیلئے ۴۴۳ میگاواٹ بجلی کی الاٹمنٹ کردی گئی ہے۔ اسی طرح آئندہ ماہ مارچ کیلئے۵۹۳ میگاواٹ بجلی الاٹ کی جاچکی ہے۔ اپنی پیداوار الگ سے ہے۔
اس الاٹمنٹ کے باوجود بجلی بحران جاری ہے،ا س بحران پر تکنیکی اعتبار سے قابو پانے اور سپلائی نظا م کو لوگوں کی ضروریات کی تکمیل کے حوالہ سے بھی جدید خطوط پر استوار کرنے کی بجائے محکمہ بجلی نے کشمیرمیں ’’چور‘‘ ’’چور‘‘شور مچایا ، چھاپہ ماری کاسلسلہ ہاتھ میںلے کر کشمیر کی بحیثیت مجموعی کردار کشی کی مہم ہاتھ میں لی، قطع نظر اس کے اس چھاپہ مار مہم کے دوران کچھ بجلی صارفین کو ہکنگ کے الزام میںملوث پاکر ان سے جرمانہ وغیرہ کی صورت میں ہرجانہ کی رقم وصول کی لیکن ہکنگ کے خوگر مٹھی بھر صارفین کو نشانہ بنانے کی بجائے سارے کشمیر کو چور قرار دیا۔ بالکل اسی طرح جب فاروق عبداللہ وزیراعلیٰ تھے تو اُس نے بھی اقتدار کی بدمستی میںیہی نعرہ بلند کیا تھا ۔
خود مرکزی وزیربجلی کا پارلیمنٹ میںدیا گیا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ جموںوکشمیر میںبجلی کی کمی کا تناسب ۱۹۔۲۰۱۸ء میں۱۷؍عشاریہ ۸؍فیصد سے گھٹ کر نومبر ۲۳ء تک محض ڈیڑھ فیصد رہ گیا ہے۔ ظاہر ہے اس تناسب سے ترسیلی نقصانات کا حجم بھی گھٹنا چاہئے، لیکن کیا گھٹا ؟اس بارے میں محکمہ بجلی خاموش ہے۔ کشمیر سوال کررہاہے کہ اگر محکمہ بجلی کا دعویٰ ہے کہ کشمیرمیںبجلی کا ناجائز یا غلط استعمال ہورہا ہے تو کیا جموں دودھ کا دھلا ہے۔ کیا اس خطے میں بجلی کا ناجائز استعمال نہیںہورہاہے ، کیا جموں خطے میں ہکنگ نہیںہورہی ہے، کیا جموں خطے کے سارے صارفین کے گھروں اور کاروباری اداروں میں سمارٹ میٹر نصب کئے گئے ہیں، لیکن اس سے برعکس حقیقت کے باوجود جموں کے محکمہ بجلی نے چو رچور کا شو رنہیں مچایا، چھاپے ماری نہیں کی اور نہ ہی آنکھ مچولی کی لعنت کا شہریوں کو سامناہے۔
کیا ملک کے کسی حصے، ریاست ،شہر یا یوٹی میں ہکنگ نہیںکی جارہی ہے ، کیا اس بارے میں ہمارے محکمہ بجلی کے ارباب کو کسی قسم کی جانکاری نہیں ہے، اگرنہیں ہے تو تازہ ترین ایک سرکاری اعتراف کے ساتھ اعداد وشمارات کی روشنی میں ان کی اطلاع اور جانکاری کیلئے بتادیں کہ حیدر آباد کے صرف تین بجلی ڈویژنوں میںروزانہ ۲۰؍ لاکھ یونٹ بجلی غائب ہورہی ہے، ایک بجلی یونٹ کی قیمت ۷؍روپے ہے، یہ رقم سالانہ ۵۱۱؍کروڑ روپے بنتی ہے۔ اسی سے ملتے جلتے معاملات بہت سارے شہروں، بستیوں اور علاقوں میں پائے جارہے ہیںلیکن انہیں متعلقہ محکموں کی جانب سے چور قرارنہیں دیاجارہاہے، کردارکشی نہیں کی جارہی ہے بلکہ محکمہ سپلائی نظام میں اپنی خامیوں کو دور کرکے نقصانات پر قابو پانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
جموںوکشمیر میں ۲۰؍ ہزار اور ۳۰؍ ہزار میگاواٹ بجلی پیداکرنے کی گنجائش ہے اور اس پیداواری صلاحیت کو حاصل کرنے کی سمت میں منصوبے مرتب کئے جارہے ہیں ، جبکہ موجودہ ٹرانسمیشن لائنوں او رگرڈ نظا م کو وسعت دے کر مستحکم بنایاجارہاہے۔ یہ دعویٰ اب پرانے ہوتے جارہے ہیں ، چنا ب ویلی کا رپوریشن کی تشکیل اور قیام کواب تقریباً ۱۵؍ سال ہوگئے لیکن ابھی تک یہ ادارہ ایک بھی میگاواٹ بجلی کی پیداوار حاصل نہ کرسکا۔ اس طویل مدت کے دوران اس ادارے کے قیام، ملازمین کی تنخواہوں، دفتری اخراجات گاڑیوں کی خریداری اور پیٹرول وغیرہ کی فراہمی اور دوسرے تصرفات کا حجم کیا رہا اس بارے میںکوئی سوال نہیں کیاجارہاہے۔ کیوں؟
ہم ہکنگ کے مرتکب صارفین کے خلا ف کسی بھی تادیبی کارروائی کے حق میں ہے لیکن جو صارفین سمارٹ میٹروں کے مطابق بجلی فیس اداکررہے ہیں وہ یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ بجلی ایڈمنسٹریشن اپنے اعلانات کہ میٹروالے علاقوں کو ۲۴؍ گھنٹے بغیر کسی کٹوتی کے سپلائی یقینی بنائی جائیگی کا خود احترام کیوں نہیں کرپاتی اور پھر جب کٹوتی شیڈول کے مطا بق ساڑھے چار گھنٹے کی کٹوتی کا اعلان کیا جاتا ہے تو اُس کو بھی واجب احترام تصور نہیں کیاجارہاہے بلکہ محکمہ کا یہ اعتراف بھی ریکارڈ پر ہے کہ اس شیڈول کے علاوہ بھی کٹوتی کا سہارا لیاجارہاہے۔
ہکنگ اور بجلی چوری کے حوالہ سے معاملہ پر جب بات کی جاتی ہے تو کچھ ہی سال قبل سرینگر کے مضافات میں ایک پوش کالونی میںچھاپہ ماری کی گئی تو یہ سنسنی خیز حقیقت انکشاف کی صورت میں سامنے آئی کہ ’ فیصلہ ساز اداروںکے کچھ اعلیٰ عہدیدار‘سول اور پولیس، چوڈیشری اور دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والے بحیثیت بجلی صارف ’چور‘ نکلے، لیکن جب معاملہ میڈیا کی نظر میں آیا اور پبلسٹی کی نذر ہو ا تو معاملہ کو گول کردیاگیا۔ کسی ایک بھی بجلی چور کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی، نہ بجلی چور قراردیاگیا اور نہ ہی کسی کی کردار کشی کی گئی۔ یہ بھی تصویر کشمیر کا ایک رُخ ہے!
ShareTweetSendShareSend
Previous Post

لون اوربخاری کی تازہ تازہ یاری

Next Post

عرفان پٹھان نے کثرت رزق کا راز بتا کر دل جیت لیے

Nida-i-Mashriq

Nida-i-Mashriq

Related Posts

آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

2025-04-12
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

2025-04-10
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

کتوں کے جھنڈ ، آبادیوں پر حملہ آور

2025-04-09
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اختیارات اور فیصلہ سازی 

2025-04-06
اداریہ

وقف، حکومت کی جیت اپوزیشن کی شکست

2025-04-05
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اظہار لاتعلقی، قاتل معصوم تونہیں

2025-03-29
اداریہ

طفل سیاست کے یہ مجسمے

2025-03-27
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اسمبلی سے واک آؤٹ لوگوں کے مسائل کا حل نہیں

2025-03-26
Next Post
شریئس ائیر کی کپتانی میں کولکاتہ کا مستقبل روشن: عرفان پٹھان

عرفان پٹھان نے کثرت رزق کا راز بتا کر دل جیت لیے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

  • ePaper

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.