جموںوکشمیر میں واقع کوئی پرائیوٹ سکول داخلہ کے نام پر فیس وصول نہیں کرسکتا اور اگر کسی نے تازہ ترین سرکاری احکامات کی عدولی کی توا س کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائیگی جس میں سکول کی رجسٹریشن منسوخ تک کرنا شامل ہے۔
یہ نیا حکم حکومت کی طرف سے مقرر فیس فکسنگ کمیٹی نے جاری کیا ہے۔ حکم نامہ میںکہاگیا ہے کہ نجی تعلیمی ادارے معمول کے مطابق ٹیوشن فیس، گاڑی کرایہ، ماورائے تعلیم سرگرمیوں مثلاً تفریح طبع کی خاطر کسی جگہ جاکر پکنگ منانے پر آنے والے اخراجات کی بھر پائی کیلئے متناسب طریقے کے تحت چارجز کی وصولی، سالانہ فیس وصول تو کرسکتے ہیں لیکن اور کوئی رقم نہیں۔
کمیٹی کے چیئرمین جسٹس سنیل حالی کا کہنا ہے کہ عمومی شکایت یہ موصول ہوتی رہی ہے کہ داخلہ کے نام پر رقم وصولی جارہی ہے جو ترمیم شدہ سکول ایکٹ کی صریح خلاف ورزی ہے۔ کمیٹی کی جانب سے جاری تازہ ترین حکم نامہ کا خیر مقدم تو کیا جاسکتا ہے اور کیا بھی جانا چاہئے کیونکہ اس حکم نامہ کے تحت جاری ضابطوں کا تعلق بچوں کے تعلیمی حقوق اور ان کے مستقبل اور والدین کے مجموعی مفادات سے ہے۔ جبکہ دوسرا اہم مقصد یہ بھی ہے کہ تعلیم تک رسائی کو ہر ممکن طور سے آسان اور قوت استعداد کے قریب قریب رکھا جاسکے نہ کہ تعلیم کے نام پر تاجرانہ ذہنیت اور اپروچ کی حوصلہ افزائی کرکے بچوں کیلئے تعلیمی اداروں کے دروازے بند کردیئے جائیں۔
لیکن معاملہ یہی پر ختم نہیں ہوتا ہے اور نہ آنے والے برسوں میں ختم ہونے کی کوئی اُمید رکھی جاسکتی ہے۔ یہ پہلا موقعہ نہیں ہے کہ جب ریاست داخلہ فیس کے نام پر بزنس پر روک لگاتی رہی ہے۔ ماضی یہی رہا اور حال کچھ مختلف نہیں۔ ہر پرائیوٹ سکول داخلہ کے نام پر جو لن ترانیاں اور من چاہئے راستے اختیار کرتے آرہے ہیں وہ اب ایک استحصال اور ناسور کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔ داخلہ کو ممکن بنانے کیلئے اب سیٹ نیلام کرنے تک نوبت آچکی ہے۔ ہرداخلہ کیلئے رقم ایک لاکھ اور ڈیڑھ لاکھ کے درمیان والدین سے وصول کی جارہی ہے۔ معمولات کے علاوہ بلڈنگ فیس اور سالانہ فیس کی وصولیاں الگ سے ہیں۔
پرائیوٹ تعلیمی اداروں کے منتظمین ، جو بھی ہیں، سیاسی آشیرواد رکھتے ہیں، سیاسی پارٹیوں کی رکنیت رکھتے ہیں یا وہ جو محض کاروبار اور بزنس کی نیت سے میدان میں اُتر چکے ہیں کا ایک ہی مشترکہ ترانہ ہے کہ داخلہ فیس کے لئے جو حد مقرر کی گئی ہے اس کی ادائیگی لازماً ہے لیکن اس ادائیگی کی کوئی رسید اجرا نہیں کی جارہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ داخلہ فیس کے نام پر جو بھاری سرمایہ وصول کیا جارہاہے وہ سکولوں کے یا ان کے مالکان کے کس کھاتے میں جمع ہورہا ہے، کیا یہ منی لانڈرنگ کے زمرے میںنہیں آرہاہے، کیا ٹیکس نیٹ کی نظر ان وصولیوں پر نہیں ہے ، یہ تعلیمی ادارے جو داخلہ کے نام پر والدین کو لوٹ رہے ہیںاور ان کی بچوں کے حوالہ سے آرزوں اور خواہشات کو لے کر بلیک میل کررہے ہیں کسی بھی طرح کی جواب دہی سے مستثنیٰ کیوںہیں؟
ان میں سے اکثر تعلیمی اداروں کو حکومت نے اربوںروپے مالیت کی زمین الاٹ کررکھی ہیں جن کے عوض ان سے برائے نام کرایہ وصول کیاجارہاہے۔ لیکن لیز شرائط کے تحت غریب بچوں کیلئے کم سے کم ۲۰ فیصد نشستیں مخصوص کرنا ان کی ذمہ داری ہے جو سکول منتظمین نہیں کررہے ہیں۔
اس طرح اب تک کے سارے اجرا شدہ سرکاری احکامات ’’حکم نواب تادر نواب‘‘ سے بھی ابتر ثابت ہوچکے ہیں۔ کیونکہ سکولوں کے منتظمین اثر ورسوخ رکھتے ہیں، ایک مخصوص بزنس کلٹ کو جنم دیا گیا ہے جبکہ مختلف اداروں سے وابستہ وہ لوگ جو فیصلہ ساز حیثیت رکھتے ہیں اور فیصلوں کو عملی جامہ پہنانے کی بھی ذمہ داری انہی کی ہے میں سے کئی ایک کے مفادات وابستہ ہیں یہی وجہ ہے کہ اب تک لئے جاتے رہے فیصلے عمل آوری کے حوالہ سے دن کا اُجالا نہیںدیکھ پائے ہیں۔
اگر ماضی اور ماضی قریب کی طرح اب کی بار بھی پرائیوٹ سکول اسی طرزعمل اور ناجائز وصولی کے راستہ پر گامزن رہے تو کیا فیس فکسنگ کمیٹی کے اس فیصلے کہ اگر کسی نے خلاف ورزی کی تو اس کی رجسٹریشن منسوخ قراردی جائیگی پر کیا عمل درآمد ہوگا؟ تجربہ، مشاہدہ اور روایت یہی ہے کہ نظرانداز کرو، چھوٹ دیدو اور بیانات جاری کرکے والدین کو یقین دلاتے رہو کہ خلاف ورزیاں برداشت اور قابل قبول نہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ دوسرے کئی ایک معاملات میں حد اعتدال سے کہیں زیادہ تجاوز کرکے خلاف ورزیوں کانوٹس لے کر تادیبی کارروائیاں توکی جارہی ہیں لیکن جب معاملہ پرائیوٹ تعلیمی اداروں کی کاروباری ذہنیت کا سامنے آجاتا ہے تو ایڈمنسٹریشن نرم پڑ جاتی ہے، ہر معاملہ نظرانداز کرتی ہے اور والدین کو ٹھگنے کا موقعہ فراہم کیاجاتا ہے۔ یہ کب تک چلے گا؟
ہمیں اس بات کا بھی اعتراف ہے کہ بعض پرائیوٹ تعلیمی اداروں نے حالیہ برسوں کے دوران جموںوکشمیر کے تعلیمی سیکٹر میںنمایاں رول اداکیا، تعلیم وتربیت کے ڈھانچوں کو جدید ترین خطوط پر استوار کیا، تعلیم کے تعلق سے ایک نئی مگر فکر انگیز بیداری کو متعارف کرایا، بچوں کی تعلیم اور ماورائے تعلیمی سرگرمیوں میں ایک نئی روح پھونک دی، ان خدمات کے تعلق سے ان کا رول واقعی ناقابل فراموش ہے لیکن اس رول کیلئے وہ اپنی اہلیت اور حق سے کہیں زیادہ تجاوز کرکے والدین سے معاوضہ وصول کررہے ہیں۔
ٹیوشن فیس میں ہر سال اضافہ ،ٹرانسپورٹ خدمات کیلئے غیر متناسب رقومات کی وصولی، اور سالانہ فیس کی وصولی ایسے اقدامات اور معاملات بھی ہیں جو والدین کے ساتھ کی جارہی زیادتی کے زمرے میں آتے ہیں جن کو ناجائز استحصال بھی قراردیاجاسکتا ہے ۔ زیادتی اور ناجائز استحصال کے حوالہ سے یہ بات بھی کرنے کی گنجائش ہے کہ یونیفارم اور سٹیشنری کی خریداریوں کیلئے بھی ان میں سے بیشتر سکولوں نے اپنے ایجنٹ مخصوص کررکھے ہیں۔
ان کے کس کس معاملے کے تعلق سے بات کی جاتی رہیگی، یہ معاملات اب شیطان کی آنت کی طرح لمبائی کھینچتے جارہے ہیں، ان معاملات کے سامنے والدین اکثر وبیشتر اوقات اپنے آپ کو بے بس پارہے ہیں۔ بہرحال جسٹس حالی نے اب جبکہ نئے سرے سے پہل کی ہے اُمید تو یہی کی جاسکتی ہے کہ کوئی تعلیمی ادارہ پیٹ پیچھے داخلہ فیس کی بھاری رقم وصول کرکے اپنی تجوریوں کی زینت بنانے سے گریز کرے گا، کیونکہ معاملہ کا تعلق کچھ تو شرم سے ہے، کچھ اخلاقیات کے بھی تقاضے ہیں جبکہ کچھ کا تعلق سماجی ذمہ داریوں اورجذبات سے ہے!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔