سرینگر//
صوبائی کمشنر کشمیر وجے کمار بدھوری کا کہنا ہے کہ پیسہ دوگنا کرنے کے وعدے پر لوگوں کو دھوکہ دینے والی کمپنی کے خلاف تحقیقات جاری ہے۔
بدھوری نے کہا کہ اس سلسلے میں فوری قانونی کارروائی عمل میں لا کر لوگوں کو پیسہ واپس دلانے کی کوشش کی جائے گی۔انہوں نے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ ایسی کمپنیوں سے خبر دار رہیں۔
بتادیں کہ منگل کے روز سری نگر کے کرنگر علاقے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے’کریٹوسروے پرائیوٹ لمیٹیڈ‘ کے خلاف احتجاجی مظاہرے کئے اور الزام لگایا کہ کمپنی نے لوگوں کو۶۰کروڑ روپے کا چونا لگا کر فرار کی راہ اختیار کی۔انہوں نے الزام لگایا کہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے دو یوٹیوبرز نے کمپنی کا پرچار کیا جس کے نتیجے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو کروڑوں کا چونا لگ گیا۔
صوبائی کمشنر نے بدھ کے روز اس سلسلے میں پوچھے جانے پر کہا’’کل جو یہ معاملہ سامنے آیا، ایجنسیاں اس پر کام کر رہی ہیں اور اس ضمن میں تکنیکی معلومات حاصل کی جا رہی ہیں‘‘۔انہوں نے کہا’’یہ معاملہ ہمارے لئے چشم کشا ہے اس سلسلے میں تحقیقات چل رہی ہیں ہماری کوشش ہے کہ قانونی کارروائی کرکے لوگوں کو اپنا پیسہ واپس دلائیں‘‘۔
بدھوری نے کہا کہ لوگوں کو ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ ایسے لوگ پیسہ اینٹھنے کے نئے نئے طریقے نکال رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس کیس کے تمام پہلوئوں کا دیکھا جا رہا ہے ۔
اس سے پہلے جموں و کشمیر پولیس نے کروڑوں روپے کے سرمایہ کاری فراڈ کی تحقیقات کے سلسلے میں سرینگر میں پانچ مقامات پر چھاپے مارے ہیں۔
پولیس نے بتایا کہ جموں و کشمیر پولیس کی سائبر ونگ نے ہفتہ کی رات چھاپوں کے دوران الیکٹرانک آلات اور دستاویزات ضبط کیے۔
عہدیداروں نے بتایا کہ ہندی فلم’پھر ہیرا پھیری‘ سے متاثر ہوکر دھوکہ بازوں نے کرن نگر علاقے میں ’کیوریٹیو سروے‘ کے نام سے ایک کمپنی قائم کی اور دو ہفتوں کے اندر اپنی سرمایہ کاری دوگنی کرنے کے بہانے کئی لوگوں سے کم از کم۵۹کروڑ روپے کی دھوکہ دہی کی۔
تاہم حکام کا کہنا ہے کہ یہ رقم بڑھ سکتی ہے کیونکہ تحقیقات ابھی جاری ہے۔
ابتدائی طور پر ، کمپنی نے اپنے وعدے کو پورا کیا جس نے زیادہ سرمایہ کاروں کو لایا اور اس اسکیم کو کم از کم دو مقامی یوٹیوبرز نے فروغ دیا جس سے اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔
عہدیداروں نے بتایا کہ اس کے فورا بعد کمپنی کے مالکان غائب ہوگئے اور انہوں نے کرن نگر کے دفتر کو تالا لگا ہوا پایا۔
ایک یوٹیوبر ادریس میر نے کہا کہ انہیں اس فراڈ کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا کیونکہ انہوں نے اپنے چینل پر کمپنی کو بطور پیڈ پروموشن پیش کیا تھا۔
میر نے کہا’’یہ صرف میں نے نہیں کیا تھا۔ دوسرے بھی ہیں۔ ہمارے پاس یہ دیکھنے کیلئے ہمارے اپنے چیک ہیں کہ آیا کمپنی ایک قانونی ادارہ ہے یا نہیں۔ اس کے بعد ہی ہم کمپنی کو فروغ دیتے ہیں۔یہ کمپنی جموں، سری نگر، پیٹن اور سنگراما میں شاخوں کے ساتھ تقریبا ایک سال سے کام کر رہی تھی۔ اس سارے عرصے کے دوران کیا ہو رہا تھا؟‘‘ (ایجنسیاں)