جموں وکشمیرمیں اسمبلی انتخابات کے انعقاد اور ریاستی درجہ کی بحالی کے تعلق سے سپریم کورٹ نے جو ڈیڈ لائن دی ہے اُس ڈیڈ لائن کو حرف آخر تصور کیاجائیگا، کیا اس مہلت کی روشنی میں انتخابات کا انعقاد ممکن ہوگا اور کیا انتخابات سے قبل یا ان کے بعد ریاستی درجہ بحال کیاجائے گا اس سب کے بارے میں فی الوقت تک کوئی حتمی یا قابل اعتماد یقین دہانی سامنے نہیں آئی البتہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے اس مخصوص حصے پر اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کچھ مخصوص سیاسی حلقوں نے اپنے تحفظات ظاہر کئے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ پارلیمانی الیکشن کے پیش نظر متعلقہ ادارے بشمول سکیورٹی سیٹ اپ حد سے زیادہ مصروف اور دبائو میں ہوگا لہٰذا پارلیمانی الیکشن کے ساتھ یا ان کے قریب اسمبلی الیکشن کا انعقاد و انتظام ممکن نہیںہوگا۔ دوسری دلیل یہ پیش کی جارہی ہے کہ چونکہ زائد از دو ماہ طویل امرناتھ یاترا بھی انہی ایام میں ہوگی لہٰذا اسمبلی انتخابات کا انعقاد مشکل نظرآرہا ہے۔ یہ حلقے اور بھی کچھ وجوہات پیش کررہے ہیں جن کا زمینی حقائق سے تو کوئی واسطہ نہیں البتہ ان کی نوعیت سیاسی مصلحتوں پر مبنی محسوس کی جارہی ہے۔
لیکن ان سب قیاس آرائیوں اور اٹکلیوں کے بیچ لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے دوٹوک الفاظ میں اعلان کیا ہے کہ اسمبلی انتخابات سپریم کورٹ کی جانب سے مقررہ و قت کے اندر اندر اپنے منطقی انجام تک پہنچائے جائیں گے اور اس میںکوئی کوتاہی نہیں ہوگی۔گورنر کے اس واضح اعلان کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ اب اگلے سال ستمبر کے آخیرتک انتخابات کے انعقاد کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہونے دی جائیگی جبکہ اس واضح یقین دہانی کی روشنی میں جموں وکشمیرکے وہ تمام سٹیک ہولڈر جوا نتخابات کے انعقاد کا مسلسل مطالبہ کرتے رہے ہیں کے لئے اب اگر مگر کہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہونی چاہئے بلکہ انتخابات کی سمت میں اپنی تیاریوں ، ایجنڈا، منشور اور مستقبل کے حوالہ سے واضح اور ٹھوس روڈ میپ کے ساتھ میدان میں آنا چاہئے۔
کشمیر اور جموں دونوں خطوں کے لوگوں کی ۹۹؍ فیصد اکثریت بھی چاہتی ہے کہ انتخابات کا مرحلہ اپنے منطقی انجام تک پہنچایا جائے تاکہ عوام کے منتخبہ نمائندے لوگوں کو درپیش گونا گوں مسائل اور معاملات کا ان کی خواہشات اور مقامی ضروریات کے مطابق حل تلاش کرسکیںلیکن کچھ خدشات کو بھی زبان دی جارہی ہے جس کا تعلق ماضی قریب میں ہوئے الیکشن کے انعقاد اور ان نتائج جن کے بارے میں عمومی تاثریہ ہے کہ وہ ’ہینڈ میڈ‘ رہے ہیں کا اعادہ نہ ہو۔اس حوالہ سے یہ تاثر گذرے برسوں کے دوران شدت اختیار کرچکا ہے کہ اگر عوام کو جمہوری عمل کا دیانتداری اور جمہوری مزاج اور جمہوریت کے بُنیادی تقاضوں کے مطابق حصہ دار اور شرکت دار بنایاگیا ہوتا، میڈان دہلی الیکشن کا انعقاد اور میڈان دہلی کٹ پتلی حکومتوں کو وجود بخش کر عوام پر مسلط نہ کیاگیا ہوتا تو ۹۰۔ ۸۹ء میں عسکری دور کو وجود نہ ملاہوتا۔
پھرا سی عسکریت نے دہشت کا روپ اختیار کرلیا، غیر سرکاری اعداد وشمارت کے مطابق زائد از ایک لاکھ لوگ جبکہ سرکاری اعداد وشمارات کے مطابق ۴۵؍ہزار شہری اور فورسز اہلکار اپنی قیمتی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، یتیموں اور بیوائوں کی ایک بڑی تعداد وجود میں آگئی جبکہ اس ساری مدت کے دوران ہزاروں نجی اور سرکاری تعمیرات متعدد بستیوں کے ساتھ کھنڈرات میں تبدیل ہوتی رہی، آبادی کا دیڑھ لاکھ سے ۲؍ لاکھ کے درمیان نفوس کو گھر بار چھوڑ کرمختلف مقامات پر پناہ گزین ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت کچھ کشمیر کھو چکا ، جس میںخاص طور سے کشمیریت، اخلاقی اور تہذیبی اقدار، معاشرتی روایات جبکہ تعلیم وتربیت کے شعبوںمیں کشمیرخاص طور سے ناقابل تلافی نقصانات سے دو چار ہوا۔
لیکن ان سب نقصانات میں وہ کرب وابتلا ، وہ کسمپرسی، معاشی تنگ دستی، نفسیاتی اور اعصابی دبائو اور کھینچائو ، دن اور رات کا چھنا سکون شامل نہیں جن سے کشمیر کا ہر فرد اور ہر گھرانہ متاثر ہوتا رہا۔ اس تمام تر منظرنامہ جو دلخراش بھی ہے، روح فرسا بھی رہا ہے، بے حد تکلیف دہ اور ضرر رساں بھی رہاہے کو اگر مستقبل کے حوالہ سے کسی اور ہی نئی مصلحت کے پیش نظر کسی نئے روپ ورنگ میںمسلط کرنے کی کوشش کی گئی توپھر کشمیر اور کشمیری جوا ب بتدریج خود کو سنبھال رہے ہیں نہ سنبھل پائیں گے اور نہ حالات قابو میں آجائیں گے۔
ہر سیاسی پارٹی جو سٹیک ہولڈر ہونے کا دعویٰ کرتی ہے مجوزہ الیکشن میں اس کیلئے لیول پلے انگ فیلڈ یعنی انتخابات میںشرکت کے حوالہ سے مکمل غیر جانبداری سے یکساں مواقع فراہم کئے جائیں تاکہ انتخابی دھاندلیوں یا غیر منصفانہ طریقہ سے الیکشن کے انعقاد کا کوئی سوال بعدمیں سامنے نہ آسکے اوررائے دہندگان بھی مطمئن رہیں۔ اس حوالہ سے کچھ سرحدی علاقوں کے تعلق سے جو کچھ شبہات اور خدشات پائے جارہے ہیںضرورت اس بات کی ہے کہ ان خدشات اور شبہات کو بھی مناسب طریقے سے دورکیاجاناچاہئے۔کم سے کم دس ایسے حلقوں کی بات کی جارہی ہے جن کے بارے میں یہ تاثر ابھی کچھ عرصہ سے گردش میں ہے کہ ان حلقوں کا رزلٹ طے ہوچکا ہے۔
بہرحال جو کچھ بھی ہے جموں وکشمیر میں اسمبلی انتخابات کے اہتمام وانعقاد کی سمت میں اب مطلع صاف ہونا شروع ہوگیا ہے، بادل چھٹنے لگ گئے ہیں لیکن یہ آثار بھی مطلع پر صاف دکھائی دے رہے ہیں کہ انتخابات کے انعقاد کے تعلق سے جو پارٹیاں شور مچاتی رہی ہیں اب وقت کے تعین کے بعد سے کسی حد تک مخمصہ میںہیں، اب سیاسی پارٹیوںکوچنائو منشور مرتب کرنے، عوام کے پاس جانے کیلئے نریٹوز اختیار کرنے اور عوام کی توجہ اپنی طرف کھینچنے کیلئے سخت جدوجہد کرنی پڑئیگی کیونکہ سارے پرانے نریٹو ز اور جذباتی نعرے دفن ہوچکے ہیں ، اب ان کی جگہ کوئی نیا نریٹو اختیارکرنا ہوگا اور نئے نعروں کو تخلیق کرنے کی ضرورت محسو س ہوگی۔