تو صاحب اپنے گورے گورے بانکے چھورے‘ عمر عبداللہ صاحب نے کچھ ہفتوں تک خاموش ہونے سے پہلے خاموشی سے کچھ ایک باتیں ایسی کہیں ہیں ‘جنہیں کہنے کیلئے جرأت ہونے چاہئے… سیاستدانوں میں بھی یقینا جرأت ہو تی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے لیکن کیا کیجئے گا کم بخت اس مصلحت پسندی اور سیاسی مفادات کے جو حائل ہو جاتے ہیں… عمر عبداللہ نے ایک انٹرویو میں کہا کہ اگر کشمیر میں علیحدگی پسندی اور دہشت گردی کیلئے ۳۷۰ ذمہ دار ہوتی تو… تو کشمیر میں دہشت گردی اور علیحدگی پسندی اسی دن شروع ہو جاتی جس نے یہ دفعہ وجود میں آئی … یعنی ۷۰‘۷۵ سال پہلے … لیکن… لیکن عمر صاحب کے مطابق کم و بیش ۴۰ برسوں تک تو کشمیر میں امن رہا … ۱۹۸۷ تک امن رہا … کوئی دہشت گردی تھی اور نہ علیحدگی پسندی تھی… ان کی سنی جائے تو… تو کشمیر میں دہشت گردی اور علیحدگی پسندی ۱۹۸۷ کے بعد شروع ہوئی … آپ کہیں گے کہ اس میں کون سی نئی بات ہے جو عمر عبداللہ نے کہی… صاحب اس میں نئی بات یہ ہے کہ گورے گورے بانکے چھورے اعتراف کرتے ہیں کہ کشمیر میں موجودہ صورتحال کی جڑیں۱۹۸۷ کے سال میں پیوستہ ہیں… تو صاحب ۱۹۸۷ میں کیا ہوا تھا ؟۱۹۸۷ میں اسمبلی انتخابات میں بھاری دھاندلیاں ہو ئی تھیں… مسلم متحدہ محاذ کے امیدوار جن جن حلقوں سے کامیاب ہو رہے تھے…ان حلقوں سے ہار نے والوں کو کامیاب قرار دیا گیا تھا… اور یہ ہارنے والے جنہیں کامیاب قرار دیا کس جماعت سے تعلق رکھتے تھے ؟اس وقت کشمیر کی کس جماعت کا کانگریس کے ساتھ اتحاد تھا … جواب آپ بھی جانتے ہیں اور ہم بھی اور… اور جواب یہ ہے کہ …کہ یہ نیشنل کانفرنس تھی جس کے امیدوار ‘ متحدہ محاذ کے امیدواروں سے ہار رہے تھے…یہ نیشنل کانفرنس تھی جس نے کانگریس سے اتحاد کرکے دہلی کی مرکزی حکومت کی پشت پر انتخابی دھاندلیاں کیں اور… اور آج کم و بیش چالیس برسوں بعد عمر عبداللہ اس کا اعتراف کررہے ہیں… اس لئے اعتراف نہیں کررہے ہیں کیونکہ انہیں اپنی جماعت کی اس غلطی کا احساس ہے یا احساس ہوا ہے…نہیں صاحب ایسا نہیں ہے۔عمرعبداللہ ایسا اس لئے کہہ رہے ہیں کیوں کہ انہیں امیت شاہ … وزیر داخلہ امیت شاہ کی اس بات کا توڑ کرنا ہے…یہ جناب وزیرداخلہ کے اس دعوے کو غلط ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ … کہ کشمیر میں دہشت گردی اور علیحدگی پسندی کیلئے ۳۷۰… مرحومہ دفعہ ۳۷۰ ذمہ دار تھی ۔ ہے نا؟