سرینگر/۹مئی
وادی کشمیر میں سٹرا بری پھل پودوں سے اتارنے کا سیزن اپنے جوبن پر ہے اور اس سے وابستہ کاشتکار امسال بہت خوش اور مطمئن نظر آ رہے ہیں۔
کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ امسال قبل از وقت گرمی کی شدت میں اضافہ ہونے اور انتہائی کم بارشیں ہونے کے باوجود بھی سٹرا بری کی پیدوار تسلی بخش ہے ۔
بتادیں کہ گذشتہ دو برسوں کے دوران کورونا وبا کے پیش نظر نافذ لاک ڈا ¶ن کی وجہ سے اس فصل سے جڑے کاشتکاروں کو گونا گوں مشکلات کا سامنا پڑا تھا۔
سرینگر کے مضافاتی علاقہ حضرت بل کے گاسو نامی گا ¶ں، جس کو کشمیر کا سٹرا بری ولیج بھی کہا جاتا ہے ، میں کاشتکار آج کل پودوں سے تازہ سٹرا بری توڑنے کے کام میں انتہائی مصروف دیکھے جا رہے ہیں اور اچھی پیدوار اور خریدار ہونے کے باعث ان کے چہروں پر خوشیوں کے آثار بھی نمایاں ہیں۔
اسٹابری وادی کشمیر میں موسم سرما کے اختتام کے بعد تیار ہونے والا سب سے پہلا پھل ہے ۔ پودوں سے اتارنے کے بعد یہ پھل صرف تین سے چار دنوں تک ہی تازہ رہ سکتا ہے ۔ اس پھل کو ملک کے مختلف حصوں میں سپلائی کیا جاتا ہے ۔
ماہرین کے مطابق جموں وکشمیر اس پھل کی کاشت کے لئے موزوں جگہ ہے ۔
گوسو سے تعلق رکھنے والے منظور احمد نامی ایک کاشتکار نے یو این آئی کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ امسال کم بارشیں ہونے اور گرمی کی شدت میں پہلے ہی اضافہ درج ہونے کے باوجود بھی سٹرا بری کی پیدوار بہت اچھی ہے ۔
منظوڑ نے کہا”ماہ مارچ اور اپریل میں کم بارشیں ہونے اور گرمی معمول سے زیادہ بڑھنے سے ہمیں خدشات تھے کہ یہ فصل سوکھ جائے گی“۔ان کا کہنا تھا”چونکہ اس فصل پر ہر شام ہلکا پانی چھڑکنے کی ضرورت پڑتی ہے لہذا بارش نہ ہونے کے باعث ہم پریشان تھے “۔
کاشتکار نے کہا کہ ہم ہر شام فصل پر پانی چھڑکتے تھے تاہم گرمی کی شدت سے تھوڑا نقصان بھی ہوا اور پودے مرجھا بھی گئے لیکن بعد میں بارشیں ہونے سے یہ پودے دوباررہ تر و تازہ ہوگئے ۔انہوں نے کہا کہ سٹرا بری کی کاشت وادی کے ٹنگمرگ علاقے اور جنوبی کشمیر کے بعض علاقوں میں بھی کی جاتی ہے لیکن ووسو میں اس کی سب سے زیادہ پیدوار ہوتی ہے ۔
منظور کا کہنا تھا”ووسو میں ہر روز دو ہزار کلو سٹر بری پودوں سے اتاری جاتی ہے اور اس کو مارکیٹ میں سپلائی کیا جاتا ہے اور دو کلو والی سٹرا بری ٹرائی کی قیمت ساڑھے تین سو روپے ہے “۔
کاشتکار نے کہا کہ ہم اکثر خود ہی اس پھل کو منڈی تک پہنچاتے ہیں جبکہ کئی گاہک ہمارے پاس بھی پہنچ کر مال اٹھاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ آئس کریم فیکٹری، بیکری والے ، اور جوس فیکٹری کے مالکان ہمارے پاس آکر ہم سے مال خریدتے ہیں۔
منظور احمد نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ اس فصل کی آبپاشی کو یقینی بنانے کے لئے کاشتکاروں کو سہولیات فراہم کریں۔