سرینگر//(ندائے مشرق رپورٹ)
مختلف سول سوسائٹی گروپوں اور نچلی سطح کی تنظیموں نے جمعہ کو تین رکنی حد بندی کمیشن کی طرف سے جموں و کشمیر کے انتخابی نقشے کو دوبارہ تیار کرنے کا خیر مقدم کیا۔
پینل نے اپنے حتمی رپورٹ میں کشمیر صوبے کیلئے۴۷؍ اور جموں کیلئے ۴۳ اسمبلی نشستیں مختص کی ہیں۔
جے کے پنچایت کونسل کے چیئرمین اقبال وانی نے حد بندی کمیشن کی حتمی رپورٹ کو آبادی کے تمام طبقات کی سیاسی بااختیاریت قرار دیا۔انہوں نے رپورٹ کو منصفانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس نے جموں و کشمیر میں سیاسی اور فیصلہ سازی کے عمل میں سب کے لیے یکساں مواقع کھولے ہیں۔
جے کے پنچایت کونسل کے چیئرمین ‘اقبال وانی نے حد بندی کمیشن کی حتمی رپورٹ کو آبادی کے تمام طبقات کی سیاسی بااختیاریت قرار دیا۔
پنچایت کونسل کے چیئرمین نے رپورٹ کو منصفانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس نے سیاسی عمل اور فیصلہ سازی کے عمل میں سب کیلئے یکساں مواقع فراہم کیے ہیں۔
وانی نے کہا’’رپورٹ نے مفاد پرست عناصر کی طرف سے بنائے گئے جھوٹے بیانیے کو ختم کر دیا ہے جو جموں و کشمیر کے لوگوں کو گمراہ کر کے صرف اپنی سیاسی قسمت کو محفوظ بنانا چاہتے تھے‘‘۔
پنچایت کونسل کے چیئرمین نے مزید کہا’’انتخابی حلقوں کی دوبارہ ترتیب یو ٹی کے تمام باشندوں کو مساوی طور پر بااختیار بنائے گی اور جمہوریت کے ادارے کو مضبوط کرنے میں مدد کرے گی‘‘۔
قابل ذکر ہے کہ کمیشن نے درج فہرست ذات کی آبادی کیلئے سات حلقوں کے علاوہ پہلی بار نو اسمبلی حلقے درج فہرست قبائل کے لیے مخصوص کیے ہیں۔
ویل کیئر سول سوسائٹی کے سیکریٹری ‘ملک اشفاق کاکہنا ہے’’یہ یو ٹی میں آبادی کے پسماندہ طبقات کو بااختیار بنانے کیلئے ایک تاریخی اور راہ نما اقدام ہے‘‘۔انہوں نے کمیشن کی تعریف کی کہ وہ عوام کے عوامی مطالبے کا نوٹس لے رہے ہیں جنہیں سات دہائیوں سے زیادہ عرصے سے نظر انداز کیا گیا کیونکہ ان کے سیاسی مطالبات کو ’سیاسی اشرافیہ‘ نے پورا نہیں کیا۔
اشفاق نے مزید کہا ’’یہاں تک کہ چند اسمبلی حلقوں کے نام تبدیل کرنے کا مطالبہ بھی سیاسی طبقے نے گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران قبول نہیں کیا تھا اور کمیشن نے اب اس دیرینہ مطالبہ کو بھی پورا کر دیا ہے‘‘۔
ویل کیئر سول سوسائٹی کے سیکریٹری نے پارلیمانی حلقہ بندیوں سے متعلق کمیشن کی رپورٹ کا بھی خیر مقدم کیا، جس میں جموں خطہ کے اننت ناگ اور پونچھ،راجوری علاقوں کو ملا کر ایک لوک سبھا حلقہ بنایا گیا۔
اشفاق نے نتیجہ اخذ کیا’’یہ اقدام اس بات کو یقینی بنائے گا کہ ہر ایک حلقے میں ۱۸؍ اسمبلی حلقوں کی مساوی تعداد ہو گی‘‘۔
ارشاد احمد خان، چیئرمین ’گئو ہیپی نیس سول سوسائٹی گروپ‘ نے بھی اس رپورٹ کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے جموں و کشمیر کے لیے ایک نئی شروعات قرار دیا۔خان نے کہا’’جموں کشمیر بھر کے لوگ حقیقی ترقی سے محروم رہے کیونکہ حقائق پر مبنی مسائل پر کبھی توجہ نہیں دی گئی۔ لوگوں کی حقیقی امنگوں کو یکسر نظر انداز کیا گیا اور اس کے نتیجے میں جمہوریت یہاں جڑیں پکڑنے میں ناکام رہی‘‘۔
وسیم گل، چیئرمین جے کے یوتھ فورم نے بھی حتمی رپورٹ کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس سے یوٹی کے لوگوں کیلئے نئے راستے کھلیں گے۔گل نے مزید کہا’’اب گراس روٹ لیول کے ادارے مزید ترقی کا مشاہدہ کریں گے اور فیصلہ سازی کے عمل میں لوگوں کی شرکت کئی گنا بڑھ جائے گی‘‘۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ حد بندی کمیشن نے جموں و کشمیر میں اسمبلی اور پارلیمانی حلقوں کی حدود کو دوبارہ ترتیب دینے کا کام سونپا جس نے اپنی عبوری رپورٹ پر جموں خطے کے تمام سیاسی رہنماؤں اور پنچایتی اراکین سمیت مختلف وفود کے ساتھ بات چیت شروع کی جسے گزشتہ ماہ منظر عام پر لایا گیا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جمعرات کو بی جے پی کے جے کے صدر‘ رویڈنر رینا نے رپورٹ کو ’حیرت انگیز‘ قرار دیا تھا۔ انہوں نے نہ صرف پینل کو اس عمل کو وقت پر مکمل کرنے پر مبارکباد پیش کی بلکہ کہا کہ یہ رپورٹ جموں و کشمیر میں آبادی کے تمام طبقات کو سیاسی طور پر بااختیار بنانے کیلئے ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ تنظیم نو سے پہلے، جو یونین ٹیریٹری میں اسمبلی سیٹوں کی کل تعداد ۹۰ تک لے جاتی ہے، جموں میں ۳۷؍اور کشمیر میں ۴۶؍ اسمبلی حلقے تھے۔
جموں و کشمیر کیلئے حد بندی کمیشن مارچ ۲۰۲۰ میں قائم کیا گیا تھا اور اسے ۲۰۱۱ کی مردم شماری کی بنیاد پر مرکز کے زیر انتظام علاقے میں اسمبلی اور پارلیمانی حلقوں کی حد بندی کا کام سونپا گیا تھا۔
پینل نے حکومت سے یہ سفارش بھی کی کہ وہ پاکستان کے زیر قبضہ جموں و کشمیر کے بے گھر افراد کو نامزدگی کے ذریعے اسمبلی میں کچھ نمائندگی دینے پر غور کرے۔
اس کے علاوہ، پہلی بار، درج فہرست قبائل کے لیے نو نشستیں تجویز کی گئی ہیں‘ سیاسی جماعتوں، شہریوں، سول سوسائٹی گروپوں کے نمائندوں کے ساتھ مشاورت کے بعدچھ جموں میں اور تین وادی میں ۔