کشمیر میں موسم سرما کی آمد کے ساتھ ہی محکمہ بجلی کی خصوصی اور روایتی عنایتوں کے نزول کا بھی آغاز ہوگیا ہے۔موسم گرما کے پورے ۶؍ماہ کے دوران بجلی کی غیر معمولی کٹوتی ، آنکھ مچولی اور آئی بجلی گئی بجلی کا معمول تو بن چکا ہی تھا اب موسم سرماشروع ہونے کے ساتھ ہی بجلی کا کٹوتی شیڈول کشمیرپر مسلط کردیاگیا۔
اگر چہ موسم سرما کے دوران کٹوتی شیڈول مسلط ہوتے رہے ہیں لیکن اب کی بار کچھ مختلف ہے۔ میٹر والے علاقوں کے لئے ساڑھے چار گھنٹے اور غیر میٹروالے علاقوں کیلئے ۸؍ گھنٹے کی کٹوتی کا اعلان کردیاگیا ہے جبکہ اعلان کے ساتھ ہی عملی جامہ پہنانے کا سلسلہ بھی شروع کردیاگیا ہے۔ کٹوتی کا یہ پروگرام اہل کشمیر کیلئے کسی حیرانی کا موجب نہیں ہے بلکہ اس کٹوتی، آنکھ مچولی یا کٹوتی کے اعلانات کے علاوہ غیر اعلانیہ کٹوتی کی تاریخ اتنی ہی لمبی اور طویل ہے جتنی کہ خود کشمیر کی۔
محکمہ بجلی کے چیف انجینئر اور دوسرے متعلقہ حکام کی اس دلیل کے ساتھ اتفاق کرنے کی گنجائش ہے کہ خشک موسم کے ہوتے دریائوں میںپانی کی سطح کم ہوتی رہی جس کا لازمی اور منفی اثر بجلی کی معمول کی پیداوار پر پڑتا رہا ۔ لیکن یہ آدھا سچ ہے جبکہ دوسرا آدھاسچ کشمیر کا محکمہ بجلی اپنے جھوٹ کے پردوں میں چھپاتا آرہا ہے، جھوٹ کا یہ آدھا سچ مختلف پہلوئوں سے عبارت ہے جس کے کچھ پہلوئوںسے کشمیر نشین سیاسی پارٹیاں اور ان کی لیڈر شپ بھر پور علمیت رکھتی ہے لیکن اپنی سیاسی مصلحتوں اور حقیر سیاسی مفادات کے پیش نظر اُس آدھا سچ کو زبان نہیں دے رہے ہیں جبکہ عوامی سطح پر بھی بہت سارے ایسے ہیں جو جانکاری رکھتے ہیں لیکن اُس کو زبان پر لانے کے باوجود محکمہ کے ارباب ان کی کہی کو مفروضوں پر مبنی قرار دے کر جھٹلا رہے ہیں۔
کشمیر مسلسل بلکہ ہر سال کے ۱۲؍ مہینے کسی نہ کسی حوالہ سے کٹوتی کی زد میں رہتا ہے ۔ اس کے برعکس جموں کو اس نوعیت کے کسی کٹوتی شیڈول کاسامنا نہیںہے۔ البتہ شاخ تراشی، روزمرہ دیکھ بھال اور چند دیگر وجوہات کے پیش نظر علاقہ وار بجلی کی سپلائی کچھ گھنٹوں کیلئے روک دی جاتی ہے لیکن اس عمل یا طریقہ کار کو کٹوتی نہ قرار دیاجاسکتا ہے اور نہ کٹوتی کے زمرے میں شمار کیاجاسکتا ہے۔ کٹوتی کا یہ قہر صرف اور صرف کشمیرکیلئے مخصوص ہے لیکن ان علاقوں کیلئے نہیں جو سکیورٹی حصار کے زمرے میں شمار کئے جاتے ہیں۔ ان علاقوں میںوی آئی پی بستیاں بھی شامل ہیں جن کیلئے بجلی کی مفت دستیابی کو یقینی بنایا جارہاہے۔ جہاں تک ان مخصوص لوگوں بشمول سرکاری ونیم سرکاری دفاتر سے بجلی فیس کی وصولیابی کاتعلق ہے تو یہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
ان تلخ حقائق کے باوجو د جموں کے کچھ سیاسی ونیم سیاسی حلقوں کا مسلسل نریٹو یہ ہے کہ کشمیر کے برعکس جموں زیادہ رقم بطور فیس اداکررہاہے جبکہ جموں خطے میں کشمیرکے برعکس کم حجم میں بجلی سپلائی کی جارہی ہے ۔ تاہم اس جھوٹ کا پردہ گذشتہ دنوں محکمہ بجلی کے حکام نے یہ کہکر فاش کیا کہ کشمیرمیں روزانہ ۱۰۵۰ میگاواٹ بجلی درکار ہے جبکہ جموں میںایک ہزار میگاواٹ درکار ہے۔ کشمیرکیلئے یہ ۱۰۵۰ میگاواٹ ۸۰؍لاکھ کی آبادی کے علاوہ سکیورٹی تنصیبات کی سپلائی کیلئے درکار ہے جبکہ جموں کیلئے ایک ہزار میگاواٹ صرف ۵۰؍ لاکھ کے قریب رہا ئشوں کے لئے درکار ہے۔ البتہ تھوڑا سا حصہ سکیورٹی حصار کی ضرورتوں کیلئے بھی فراہم کیاجارہاہے۔
محکمہ بجلی جس آدھا سچ کو چھپا رہا ہے اُس کا تعلق شمالی گرڈ اور دوسرے ذرائع سے بجلی کی خریداری اور موسم گرما کے دوران جموں وکشمیر کے بجلی پروجیکٹوں سے حاصل پیداوار کے ایک اچھے خاصے حصے کو واپس گر ڈاور دوسرے ذرائع کو سپلائی کرنے سے ہے۔ اس حوالہ سے اصل پوزیشن واضح نہیں۔ جبکہ سالانہ اوسطاً ۶؍ہزار کروڑ روپے مالیت کی بجلی کی خریداری کے تعلق سے جو دعویٰ کئے جارہے ہیں وہ بھی ابہامات کے پردوں میںہے۔
بہرحال بجلی کا جو کٹوتی شیڈول ابھی چند گھنٹے قبل ہی اجرا کیاگیا ہے اس حوالہ سے یہ مشاہدے میں آیا ہے کہ میٹر والے علاقوں میں شیڈول ساڑھے ۴؍گھنٹے کے علاوہ تقریباً پونے ۲گھنٹے تک کٹوتی کی گئی۔ یہ خلاف ورزی کس کے احکامات پر کی گئی جبکہ غیر میٹر والے علاقوں کے رہائشی بھی شاکی ہے کہ شیڈول کی پہلے ہی دن خلاف ورزی کی گئی۔ بحیثیت مجموعی اعلان شدہ کٹوتی ساڑھے ۱۲؍گھنٹے کی ہے جبکہ اہل وادی کیلئے اعلان کے مطابق ۲۴؍ میں سے صرف ساڑھے ۱۱؍ گھنٹے ہی روزانہ بجلی فراہم کی جائیگی۔ لیکن اعلان شدہ کٹوتی شیڈول کے علاوہ من مرضی کٹوتی کتنے گھنٹوں پر مبنی رہیگی اس بارے میں پوزیشن واضح نہیں۔
بجلی کا یہ بحران اس قدر شدید اور سنگین نہیںہوتا اگر پانپور میںواقع ۱۷۵؍ میگاواٹ صلاحیت کاگیس ٹربائین چالو حالت میں رہتا۔ لیکن یہ پروجیکٹ بند پڑا ہے، اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ پیداوار ی لاگت فی یونٹ ہائیڈروکی فی یونٹ پیداوار کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ جموںمیں واقع تھرمل پاور پروجیکٹ بھی بند پڑا ہواہے۔ اس کے بارے میں بھی صاف گوئی سے کام نہیں لیاجارہا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟
۹۰ ء کی دہائی کے دوران انڈین آئیل کارپوریشن کے ایک سینئر عہدیدار نے جموں وکشمیر ایڈمنسٹریشن کو گیس ٹربائین پروجیکٹ کی ہیت تبدیل کرکے اس کو قابل عمل بنانے سے متعلق ایک پروجیکٹ کی پیشکش کی جس پر اُس دہائی کے دوران چند ایک کروڑ کی لاگت کا تخمینہ لگایاگیا تھا لیکن اُس وقت کی ایڈمنسٹریشن نے اس پیشکش کو قبول نہیں کیا۔نتیجہ یہ کہ سفید ہاتھی کے مانند یہ پروجیکٹ عوام کیلئے کسی کام کا نہیں رہا۔ اگر گیس ٹربائین پلانٹ جس کی پیداواری صلاحیت ۱۷۵؍ میگاواٹ ہے اور کالا کوٹ تھرمل پلانٹ جس کی پیداواری صلاحیت ساڑھے ۲۲؍میگاواٹ ہے چالو حالت میں ہوتے تو عوام کو اس قدر سنگین نوعیت کے بجلی بحران کا سامنا نہیںہوتا۔ لیکن حکومت اور ایڈمنسٹریشن کے وقتی عاجلانہ اور لمحاتی فیصلوں کے نتیجہ میں جموںوکشمیر کے اوسط شہری کو خمیازہ بھگتنا پڑرہاہے۔
جموں وکشمیرکے عوام کو یہ خمیازہ کم سے کم ابھی آنے والے ۱۲…۱۵؍ سال تک بھگتنا پڑے گا، اُس وقت تک فی الوقت زیر غور جب نئے پروجیکٹ پایہ تکمیل تک پہنچ کر پیداواری سطح پرآجائیں گے اُس وقت کی حکومت کے فیصلے کیا ہوں گے قبل از وقت کہنا ممکن نہیں البتہ یہ واضح ہے کہ ان پروجیکٹوں سے رائلٹی کے طور ۱۲؍ فیصدبجلی دستیاب نہیں ہوگی اور نہ ہی پروجیکٹ مالکان سے پانی کی قیمت وصول کی جائیگی۔