جموں//
جموں کشمیر کی اہم اپوزیشن جماعتوں بشمول نیشنل کانفرنس، کانگریس اور پی ڈی پی نے منگل کو مرکز کے زیر انتظام علاقے میں جمہوری اور آئینی حقوق کی بحالی کے لیے تقریباً تین گھنٹے طویل دھرنا دیا۔
۲۰۱۹میں جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد یہ یہاں پہلا بڑا احتجاج تھا۔
جموں کے قلب میں واقع مہاراجہ ہری سنگھ پارک میں ہونے والے مظاہرے کی قیادت نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ نے کرنی تھی، لیکن وہ ’خرابی صحت‘ کی وجہ سے سخت حفاظتی انتظامات والے مقام تک نہیں پہنچ سکے۔تاہم، صوبائی صدر رتن لال گپتا کی قیادت میں پارٹی کے سینئر رہنماؤں نے احتجاج میں شرکت کی۔
اسی طرح پی ڈی پی کی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھی احتجاج میں حصہ نہیں لیا لیکن جموں میں پارٹی کے تقریباً تمام سینئر لیڈران بشمول نائب صدر عبدالحمید چودھری اور سابق ایم ایل سی فردوس ٹاک احتجاج کا حصہ تھے۔
نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے پیر کے روز کہا کہ الیکشن کمیشن جموں و کشمیر اسمبلی کے انتخابات کے شیڈول کا اعلان نہ کرنے سے لوگوں کو منتخب حکومت کے حق کے لیے سڑکوں پر آنے پر مجبور کر سکتا ہے۔
عمرعبداللہ نے پیر کے روز سرینگر میں نامہ نگاروں کو بتایا’’ایسا لگتا ہے کہ ہمیں ایسی صورت حال کی طرف دھکیلا جا رہا ہے جہاں ہمیں اپنے جمہوری حقوق کے لیے بھی احتجاج کرنا پڑے گا‘‘۔
انتخابی کمیشن کی جانب سے پانچ ریاستوں‘ مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ ‘ راجستھان، تلنگانہ اور میزورم کے انتخابات کے شیڈول کا اعلان کرنے کے فوراً بعد، عبداللہ نے پیر کو سری نگر میں صحافیوں کو بتایا تھا۔
سی پی آئی (ایم)، نیشنل پینتھرس پارٹی (این پی پی)، عوامی نیشنل کانفرنس، شیو سینا (یو بی ٹی)، عوامی نیشنل کانفرنس اور سماجی تنظیموں سمیت مختلف جماعتوں کے سینکڑوں لیڈران اور کارکنان احتجاج کیلئے آئے۔
پردیش کانگریس کمیٹی کے صدر وقار رسول وانی نے کہا’’اپوزیشن پارٹیاں ریاستی حیثیت، جمہوری اور آئینی حقوق کی فوری بحالی کا مطالبہ کرنے کیلئے اکٹھے ہوئی ہیں‘‘۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم عوام کے حقوق اور ان کے مفادات کے تحفظ کے لیے اپنا احتجاج جاری رکھیں گے۔
وانی نے الزام لگایا کہ بی جے پی جان بوجھ کر انتخابات میں تاخیر کر رہی ہے، یہ جانتے ہوئے کہ وہ اپنے اتحادیوں جیسے ڈیموکریٹک پروگریسو آزاد پارٹی اور اپنی پارٹی کے ساتھ انتخابی لڑائیوں میں شکست کا سامنا کرے گی۔
سی پی آئی (ایم) لیڈر ایم وائی تاریگامی نے کہا کہ انہیں بی جے پی کی زیرقیادت مرکزی حکومت سے کوئی امید نہیں ہے کیونکہ اس کے تمام وعدے’جھوٹے‘ثابت ہوئے ہیں۔
پی ڈی پی کے ٹاک نے مشترکہ احتجاج کو جموں و کشمیر کے لوگوں کے لیے ایک’مثبت اشارہ‘قرار دیا اور کہا کہ اس پلیٹ فارم سے ملک کو یہ پیغام ملتا ہے کہ تمام اپوزیشن جماعتوں کو موجودہ نظام کی’تقسیم کی سیاست‘کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔