موسمیاتی تبدیلیوں کا قہر ایک طرف انسانی ہاتھوں، حریصانہ نگاہوں، ناجائز خواہشات کی تکمیل اور غیر ذمہ دارانہ طرزعمل کشمیر کے آبی وسائل کے سارے قدرتی نظام کو تہہ وبالا کررہے ہیں۔ یہ ستم ظریفی اور بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ ماضی میں جب بھی کوئی غیر ملکی سیاح واردِ کشمیر ہوا انہوںنے یک زبان ہوکر کشمیرکی موسمیاتی ماحول، قدرتی نظاروں، گلیشئروں ، دریائوں اور ندی نالوں کی بہتات اور ان سے گذرنے والے پانی کی شفافیت، قدرتی جھیلوں، پہاڑوں جو سبز ہونے کی دولت سے مالامال تھے اور سب سے بڑھ کر معتدل آب وہوا کو دیکھ اور محسوس کرتے ہوئے کشمیرکو جنت بے نظیر قراردیا۔ مغلوں نے کشمیرکے قدرتی معتدل ماحول اور خوب صورت نظاروں سے سحر زدہ ہوکر کہا کہ اگر فردوس بروئے زمین است یہی است یہی است کہا۔
لیکن ترقی اور جدیدت کے نام پر اسی جنت بے نظیر کے ساتھ کیا اور کس طرح کا مجرمانہ کھلواڑ کیا گیا اور یہ کھلواڑ فی الوقت بھی جاری ہے۔ قصور صرف سرکار اور اس کے ماتحت مختلف اداروں اور شعبوں کا ہی نہیں بلکہ عام لوگ بھی اس مجرمانہ کھلواڑ کے براہ راست ذمہ دار ہیں۔ اس ذمہ داری کے تعلق سے وقتاً فوقتاً ماہرین ، دانشور حضرات حساس ذمہ دار اور فہم رکھنے والے شہری اور کچھ دوسرے کشمیر کے قدرتی آبی وسائل کے ساتھ مجرمانہ کھلواڑ کی نشاندہی کرکے سینہ کوبی کرتے رہے ہیں لیکن نہ سرکار اور اس کے ادارے پیچھے ہٹ رہے ہیں اور نہ لالچی اور ہوس گیر ذہنیت رکھنے والے لوگ!
ڈل جھیل ، ولر، مانسبل، آنچار اور دوسرے درجنوں آبی وسائل اپنے قدرتی حجم اور شفافیت سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔ ان آبی وسائل کے سکڑنے اور ان کے پانیوں کو کثافت اور آلودگی کا مسکن بنانے کے حوالہ سے گذرے چند برسوں کے دوران جو تحقیقی رپورٹیں مرتب کرکے حکومت کو پیش کی جاچکی ہیں ان پر کسی سنجیدگی سے توجہ دے کر کوئی تادیبی کارروائی کرنے کی بجائے ان رپورٹوں کو سرکاری لاش گھروں کی ذینت بنایا جاتارہایہاں تک کہ ریاستی ہائی کورٹ کے تاریخی بلکہ عہد ساز فیصلوں تک کو کسی خاطر میںنہ لاکر کورپشن ،بدعنوانیوں اور ناجائز تعمیرات کی سرپرستی کا وسیلہ بنایا گیا ۔
ڈل جھیل کی عظمت رفتہ بحال کرنے کیلئے نہ صرف ریاستی وسائل بروئے کا ر لائے جاتے رہے بلکہ مرکزی سرکار سے بھی گذرے برسوں کے دوران خطیر سرمایہ وصول کیاجاتا رہا لیکن ہوا کیا؟ کچھ بھی حاصل نہیںکیا جاسکا، ڈل جھیل جہاں تھی آج بھی اُسی حالت میں ہے۔ اس پر طرۂ یہ کہ نشاط ۔ حضرت بل فورشور روڈ جوچار لیکن کا درجہ رکھتی ہے کی پھر سے توڑ پھوڑ ان دنوں جاری ہے۔ سڑک کی کشادگی ، ترقی اور جدیدیت کی آڑمیں ڈل کے ایک حصے کی بھرائی کا کام جاری ہے۔ معلوم نہیں کشمیر کے کن ماہر انجینئروں اور منصوبہ سازوں نے یہ پروجیکٹ مرتب کیا اور سرکاری ایوانوں میںبیٹھے کن نااہل بیروکریٹوں نے سڑک کے کنارے کنارے ڈل جھیل کی بھرائی کے منصوبے کی منظوری دی اور اس طرح ڈل جھیل کے حجم کو مزید سکڑ نے میں اپنا کرداراداکررہے ہیں۔ جبکہ اسی علاقے میں ڈل کے کیچ میٹ ائیریا کو تیز رفتاری کے ساتھ ریائشی بستی میںتبدیل کیاجارہاہے۔ یہ افسوس ناک ہی نہیں بلکہ شرمناک بھی ہے۔
جہاں تک دریا ئے جہلم کا تعلق ہے تو اس حوالہ سے ابھی حال ہی میں ایک تفصیلی تحقیقی سروے رپورٹ منظرعام پر لائی گئی ہے جس میں جہلم کے کناروں پر ناجائز تعمیرات ، جہلم کے پانی کو آلودہ کرنے والے مختلف وجوہات اور عوامل اوران کے نتیجہ میں آبادی کے لئے پیدا ہورہے مضر اثرات کو لے کر فکر مندی کو زبان دی گئی ہے۔
یہ سروے کسی اور نے نہیں بلکہ این آئی ٹی سرینگر نے کی ہے جسے سائنس آف دی ٹوٹل اینوارنمنٹ جنرل نے شائع کیا ہے۔ سروے رپورٹ میں جہلم کی آلودگی اور کثافت کے مختلف پہلوئوںکی نشاندہی کی گئی ہے لیکن آلودگی اور کثافت کی اہم ترین وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ جہلم کے دونوں کناروں پر جہلم کے سوتے سے لے کر اس کے انتہائی آخیر تک جو گندگی، غلاظت اور کوڑا کرکٹ ڈمپ کیاجارہاہے اس کے نتیجہ میں جہلم کا پانی زہر آلودہ بن چکا ہے۔ یہ رپورٹ حکومت کے مختلف متعلقہ اداروں کے پاس اب تک پہنچ چکی ہوگی البتہ حکومت باالخصوص ذمہ دار بلدیاتی اور دوسرے متعلقہ اداروں نے اب تک رپورٹ کی روشنی میں کوئی تدارکی کارروائی کی یا نہیں یہ واضح نہیں!
آنچار جھیل کے بارے میں بھی ایک سروے کی گئی ہے جس میںاور باتوں کے علاوہ ان امورات کی نشاندہی کی گئی ہے جو اس جھیل کی تباہی کا موجب بن چکے ہیں ۔ بہرحال معاملہ دریائوں کا ہے یا جھیلوں کا ان کی کثافت ، آلودگی اور مجموعی تباہی کے جتنے بھی کارن ہیں ان کی واضح طور سے نشاندہی کی گئی ہے۔ سروے رپورٹ میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیاگیا ہے کہ متعلقہ اداروں کی طرف سے یہ جانتے ہوئے بھی کہ تباہی کی بُنیادی اور اصل وجوہات کیا ہیں کوئی کارروائی نہیں کی جارہی ہے۔
اس سلسلے میں سرینگرمیونسپل کارپوریشن کو سخت ترین الفاظ میں ہدف تنقید بنایاگیا ہے۔اس تعلق سے شہر بھر کے کوڈا کرکٹ، گندگی اور غلاظت کو ڈمپ کرنے کیلئے دچھن میںصرف ایک جگہ وقف رکھی گئی، جس سے کوئی ضرورت پوری نہیں ہورہی ہے۔
وادی کے جو دوسرے آبی وسائل ہیں وہ بھی کثیف اور آلودہ بن رہے ہیں۔ اس حوالہ سے قومی گرین ٹریبونل کشمیر میں ماحولیاتی توازن اور آبی وسائل کو تحفظ فراہم کرنے اور تجاوزات روکنے کیلئے کسی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کررہاہے۔ اس تعلق سے دودھ گنگا نالہ کے تعلق سے اگر چہ ٹربیونل نے کچھ احکامات اور ہدایات جاری کی تھیں ان پر عدم عمل آوری کے ذمہ داروں کے خلاف بھی کوئی ایکشن نہیں لی جارہی ہے ۔ اس نالہ کا پانی شہر سرینگر کے مضافاتی اور بالائی بستیوں کو پینے کیلئے فراہم کیاجارہاہے جو بے حدآلودہ ، گدھلااور مضر صحت ہے۔
یہ سارے معاملات کشمیرکے ماحولیاتی توازن کے حوالہ سے سم قاتل کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اعلیٰ حکومتی سطح پر نہ کشمیرکے آبی وسائل اور نہ ہی جموں کے آبی وسائل جن کی نشاندہی سروے رپورٹوں میںموجود ہے کا تحفظ یقینی بنانے کیلئے کوئی سنجیدہ کارروائی نہیں کی جارہی ہے۔ یہ اشوہم سب کی بحیثیت مجموعی سنجیدگی ، ذمہ دارانہ طرزعمل اور حساسیت کا تقاضہ کررہاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔