کلکتہ// راج بھون کے ساتھ ممتا بنرجی کی قیادت والی حکومت کا تنازع عروج پر پہنچ گیا ہے ۔وزیر تعلیم برتیا بوس نے پیر کو الزام لگایا کہ گورنر سی وی آنند بوس یونیورسٹی کے وائس چانسلروں کی اپنی مرضی سے تقرری کرکے وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کی توہین کررہے ہیں۔ منگل کو وزیر اعلیٰ نے خود گورنر کو پیغام پہنچاتے ہوئے کہا کہ اگر گورنر اسی طرح سے من مانی کرتے رہے تو ریاستی حکومت یونیورسٹیوں کی مالی مدد بند کردے گی ۔گورنر کا نام لیے بغیر ممتا بنرجی نے کہا کہ اگر کوئی یونیورسٹی گورنر کے حکم کی تعمیل کرتی ہے تو ریاستی حکومت مالی ناکہ بندی کر دے گی۔ وزیر اعلیٰ نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ وہ ریاست کے تعلیمی نظام کی خاطر راج بھون کے سامنے دھرنے پر بیٹھ سکتی ہیں۔
منگل کوریاستی حکومت کی طرف سے دھن دھنیا تھیٹر میں منعقدہ ٹیچرس ڈے پروگرام میں وزیر اعلی نے کہاکہ گورنر تعلیمی نظام کو تباہ کی سازش کر رہے ہیں۔ ہم اس سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے ۔انہوں نے کہا کہ گورنر کی منمانی کو روکنے کے لئے ہم سخت فیصلہ کرنے کو تیار ہیں ۔ہم یونیورسٹیوں کی ناکہ بندی کریں گے ۔انہوں نے کہاکہ میں آپ کو بتا رہی ہوں، اگر یہ جاری رہا تو میں اقتصادی رکاوٹیں پیدا کروں گا۔ دیکھتے ہیں کون چلاتا ہے ۔
اس کے ساتھ ہی ممتا نے یاد دلایا کہ گورنر ریاست کی تمام یونیورسٹیوں کے چانسلر ہونے کے باوجود ریاستی حکومت رقم مختص کرتی ہے ۔ یہ بتاتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے منگل کو واضح کیا کہ اگر کوئی یونیورسٹی گورنر کے حکم کی تعمیل کرتی ہے تو مالی رکاوٹیں کھڑی کی جائیں گی۔ ممتا نے گورنر سے یہ بھی کہا کہ ‘‘یاد رکھیں، ہم اس راج بھون کے پیسے دیتے ہیں جس میں آپ بیٹھے ہیں! پنکھے کی قیمت، ہوائی جہاز کا کرایہ تمام لوگوں کی تنخواہ دیتے ہیں ۔ بوس کو مخاطب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے یہ بھی کہاکہ ضرورت ہو تو یونیورسٹی جا کر پڑھیں پہلے طالب علم بنیں، مطالعہ کریں۔ اس کے بعد بنگالی میں بات کریں۔
ممتا نے گورنر کے مختلف حالیہ فیصلوں پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے کہاکہ ‘‘آدھی رات کو جادو پور یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی تقرری ہوتی ہے ۔ کیرالہ کے ایک آئی پی ایس کو وائس چانسلر بنایا گیا ہے ۔ رابندر بھارتی میں ایک جج کو وائس چانسلر بنایا گیا ہے ۔ ہم اس سازش کو قبول نہیں کریں گے ۔ تمام بل روک لیں۔ ہم نے اسے بار بار بھیجیں گے ۔ اگر مجبور کیا گیا تو راج بھون کے سامنے بیٹھ کر دھرنا دیں گے ۔
راج بھون اور وزارت تعلیم کے درمیان تنازع کافی عرصے سے چل رہا ہے لیکن حال ہی میں اس نے بڑی شکل اختیار کر لی ہے ۔ 2 ستمبر کو راج بھون نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا جس میں کہا گیا کہ گورنر ریاستی یونیورسٹیوں کے چانسلر کے بعد وائس چانسلر کی بھی ذمہ داری سنبھالیں گہ حکومت انہیں ہدایت دے سکتی ہے ۔ لیکن وہ اس حکم کی تعمیل کے پابند نہیں ہیں۔ راج بھون نے پیر کو 16 یونیورسٹیوں میں نئے عبوری وائس چانسلروں کا تقرر کیا۔ گورنر بوس پہلے بھی ریاست سے مشورہ کیے بغیر اس طرح کے قدم اٹھا چکے ہیں۔
رابندر بھارتی یونیورسٹی کے عبوری وائس چانسلر اور ریٹائرڈ جسٹس سبھروکمل مکوپادھیائے نے پیر کو پریزیڈنسی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا عہدہ سنبھال لیا۔ یعنی وہ بیک وقت دو یونیورسٹیوں میں عبوری وائس چانسلر کے طور پر کام کررہے ہیں ۔ ایک کے بعد ایک ریاست میں بے نظیر کے واقعات کہورہے ہیں ۔ریاستی محکمہ تعلیم نے پیر کو کہا کہ یہ تقرری غیر قانونی ہے ۔
وزیر تعلیم برتیا باسو نے بھی قانونی کارروائی کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وزارت تعلیم نے راج بھون کو خط لکھ کر احتجاج کیا ۔راج بھون کی طرف سے 2 ستمبر کو جاری کردہ نوٹیفکیشن مکمل طور پر غیر قانونی ہے ۔ کہا گیا ہے کہ اس نوٹیفکیشن میں ریاستی قانون کی خلاف ورزی کی گئی ہے ۔ان حالات میں ریاستی حکومت بھی گورنر کے خلاف گورنر کے خلاف تحریک لانے پر غور کررہی ہے ۔