کلکتہ//) 2012 میں پرائمری اساتذہ کی بھرتی میں دھاندلی کے الزامات تھے ۔ اس پر عدالت میں کیس بھی چل رہا ہے ۔ اس بار کلکتہ ہائی کورٹ کے جج ابھیجیت گنگوپادھیائے نے اس معاملے میں ریاستی محکمہ تعلیم کو 50 ہزار روپے جرمانے کا حکم دیا۔ منگل کو انہوں نے حکم دیا کہ یہ رقم اگلے 10 دنوں کے اندر ہائی کورٹ کی لیگل ایڈ سروس میں جمع کرائی جائے ۔ جج نے یہ بھی واضح کیا کہ محکمہ تعلیم کو یہ رقم کہاں سے ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ بھرتی کے عمل میںکرپشن کی تحقیقات میں جو لوگ بدعنوانی کے مرتکب پائے جائیں گے ، ان سے جرمانے کی رقم لینا ہوگی۔
پرائمری اساتذہ کی بھرتی کے عمل (2012) میں مشرقی مدنی پور ضلع میں دھاندلی کے الزامات۔ چند امیدواروں نے مبینہ طور پر اقربا پروری کے ذریعے نوکریاں حاصل کیں۔ معاملہ ہائی کورٹ تک پہنچا۔ عدالت نے 2016 میں محکمہ تعلیم کے پرنسپل سیکرٹری کو تحقیقات کا حکم دیا تھا۔ لیکن سات سال گزرنے کے باوجود ابھی تک اس حکم پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ ہائی کورٹ میں نیا مقدمہ دائر کر دیا گیا۔ درخواست گزار کے وکیل نے اپنی درخواست میں کہا کہ مشرقی مدنی پور میں 2012 میں اقربا پروری کے ذریعے ملازمت حاصل کرنے والوں کی ملازمت منسوخ کی جائے ۔ ساتھ ہی یہ استدعا بھی کی گئی کہ عدالت بھرتی کے پورے عمل کی تحقیقات کا حکم دے ۔
جسٹس گنگوپادھیائے نے منگل کو اس کیس کی سماعت میں وزیر برتیا باسو کے دفتر کو 50ہزار روپے جرمانے کا حکم دیا۔ ان کی ہدایات کے مطابق، رقم اگلے 10 دنوں کے اندر ہائی کورٹ کی لیگل ایڈ سروس میں جمع کرائی جائے ۔ ساتھ ہی اگلے چھ ہفتوں میں تحقیقات مکمل کرکے رپورٹ پرنسپل سکریٹری کو پیش کی جائے ۔ ہائی کورٹ نے اپنے آبزرویشنز میں کہا کہ اگر پرنسپل سیکرٹری کے پاس فیصلے لینے کا اختیار نہیں ہے تو وہ مستعفی ہو جائیں۔ اس کیس کی اگلی سماعت 12 ستمبر کو ہوگی۔