کہتے ہیں کہ پرانی عادتیں مشکل سے چھوٹ جاتی ہیں… من حیث القوم ہم کشمیریوں کی تو بیشتر پرانی عادتیں چھوٹ گئی ہیں اور… اور مکمل چھوٹ گئی ہیں… لیکن ہم سے اب بھی کچھ ایسے ہیں جن کی یہ عادتیں … یا ان عادتوں میں سے کچھ چھوٹ نہیں پارہی ہیں… کیوں نہیں چھوٹ پا رہی ہیں… کیا وہ خود بھی کوششیں کرتے ہیں… ہم نہیں جانتے ہیں… لیکن ایک بات جو ہم جانتے ہیںوہ یہ ہے کہ ان میں کچھ ایک عادتیں نہیں چھوٹ رہی ہیں… جیسے سوال پوچھنے کی عادت…بات بات اور ہر بات پر سوال پوچھنے کی عادت … اوریہ عادت بہت غلط عادت ہے… صریحاً غلط عادت کہ… کہ کچھ باتیں ایسی بھی ہو تی ہیں‘ جن کے بارے میں سوال نہیں کئے جاتے ہیں… سوال نہیں کئے جانے چاہئیں… اورہمارے ہاں ایسی بہت سی باتیں ہیں‘ جن کے بارے میں سوال نہیں کئے جانے چاہئیں… اگر سوال من میں آئے بھی تو بھی اسے شجر ممنوع سمجھ کر دل و دماغ سے نکال دینا چاہئے … لیکن کیا کیجئے گا کچھ لوگ یہ چھوٹی سی بات سمجھ نہیں رہے ہیں یا سمجھنے کی کوشش نہیں کررہے ہیں… وہ ایسا کیوں کررہے ہیں‘ ہم نہیں جانتے ہیں… کہ … کہ اگر ہم کچھ جانتے ہیں تو … تو وہ یہ جانتے ہیں کہ ان کے سوال کرنے ‘ کسی بات پر سوال اٹھانے سے بھی کچھ نہیں ہو گا …اور اس لئے نہیں ہو گا کہ… کہ اب یہاں جوہونا ہوتا ہے وہ ہوتا ہے…اور بس۔اور جو ہونا ہوتا ہے یا جو ہو تا ہے اس پر سوال کرنے کی گستاخی کی گنجائش نہیں ہے… اور اس لئے نہیں ہے کیونکہ یہ سچ میں گستاخی… ایک بڑی گستاخی ہے ۔ اس لئے جو لوگ سوال کررہے ہیں… سوال اٹھا رہے ہیں… سوال پوچھ رہے ہیں ‘ انہیں ہمارامخلصانہ مشورہ ہے… مہنگائی کے دور میں بالکل مفت مشورہ ہے کہ… کہ وہ یہ سوال پوچھنے بند کردیں … کہ اس سے کچھ ہونے والا نہیں ہے… اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا ‘ اگر وہ اس گستاخی سے باز نہیں آنا چاہتے ہیں تو… تو کوئی انہیں بتائے ‘ انہیں آگاہ کرے کہ وہ پھر خود ایک سوال بن کے رہ جائیں گے … خود ایک سوال۔ اور… اور اللہ میاں کی قسم انہیں اس بات کو سمجھنا چاہئے اور… اور سمجھ کر اس پر عمل بھی کرنا چاہئے … اسی میں ان کی بھلائی ہے اور بہتری بھی۔ ہے نا؟