تحریر:ہارون رشید شاہ
کوئی ہمیں سمجھائے کہ ان لوگوں کی سمجھ میں یہ بات کیوں نہیں آ رہی ہے اور… اور بالکل بھی نہیں آ رہی ہے کہ یہ جو کررہے ہیں اس سے کچھ حاصل نہیں ہو گا اور… اور بالکل بھی نہیں ہو گا ۔اور اس لئے حاصل نہیں ہو گا کیونکہ گزشتہ ۳۰ سال اسی ایک بات کی چغلی کھا رہے ہیں کہ اس سے واقعی کچھ حاصل نہیںہوا ہے … اور بالکل بھی نہیں ہوا ہے ۔جی ہاں ہم بات تشدد کی کررہے ہیں ‘ جنگجوئیت کی کررہے ہیں جو ملک کشمیر کے نوجوانوں کو نگل رہا ہے ۔بارہمولہ میں ایک دو دن تک جاری رہنے والے تصادم کے دوران ہم سب نے دیکھاکہ کس طرح محاصرے میں پھنسے حال حال ہی میں جنگجوؤں کی صفوں میں شامل ہو ئے ایک جنگجو کے گھر والے روتے بلکتے فریاد کررہے تھے … یہ رونا ‘ یہ بلکنا ملک کشمیر گزشتہ ۳۰ برسوں سے دیکھ رہا ہے … دیکھ رہا ہے کہ کس طرح مائیں اپنے لخت ہائے جگروں کو اس راستے کا مسافر بنتی دیکھتی آئی ہیں جس راستے کی کوئی منزل نہیں ہے اور… اور بالکل بھی نہیں ہے ۔اور یہ بات ملک کشمیر کے اُن نوجوانوں کو سمجھ میں آنی چاہے جو جنگجوؤں کی صفوں میں شامل ہو رہے ہیں … جنگجوؤں کی صفوں میں شامل ہو کر یہ خود کو ضائع کررہے ہیں… ان کے اند رجو خداد صلاحیتیں موجود ہیں ‘اس سے وہ قوم کو محروم رکھ رہے ہیں …کشمیر میں گزشتہ تیس برسوں کے دوران اگر کوئی بات سامنے آئی ہے ‘ اگر کوئی بات ثابت ہو ئی ہے ‘ واضح ہو ئی ہے تو… تو یہ ایک بات ہے کہ تشدد کسی مسئلہ کا حل نہیں ہے اور… اور اس لئے نہیں ہے کیونکہ تشدد خود ایک مسئلہ ہے ۔تیس برس پہلے کشمیرکے نوجوانوں ‘ جنہوں نے بندوق کا راستہ اختیارکیا اگر ان میں آج کو ئی بقید حیات ہو گا تو… تو وہ بھی اس بات کا اعتراف کرے گا کہ انہوں نے جو راستہ اختیار کیا تھا وہ صحیح نہیں تھا ‘ غلط تھا اور سو فیصد غلط تھا … کہ … کہ اس سے ملک کشمیر کو نقصان ہوا اور… اور نقصان ہی ہونا تھا۔تباہی اور بربادی کی ایسی داستان رقم ہو ئی کہ … کہ جس کی نظیر کہیں نہیں مل سکتی ہے اور… اور بالکل بھی نہیں مل سکتی ہے ۔اگر آج تیس سال بعد بھی کشمیر کا کوئی نوجوان اس راستے کو اختیار کررہا ہے ‘ اس راستے پر چل رہا ہے تو … تو ہم صرف اتنا ہی کہیں کہ کوئی اسے تو سمجھائے کہ …کہ ہم یہ نہیں سمجھ رہے ہیں کہ اس کی سمجھ میں یہ بات کیوں نہیں آ رہی ہے کہ اس کے بندوق اٹھانے سے کچھ حاصل نہیںہو گا اور… اور بالکل بھی نہیں ہو گا ۔ ہے نا؟