سرینگر//
ڈیموکریٹک پروگریسو آزاد پارٹی(ڈی پی اے پی) کے سربراہ غلام نبی آزاد نے بدھ کو حزب اختلاف کی جماعتوں پر تنقید کی کہ وہ اتحاد کا مظاہرہ صرف اس وقت کریں گی جب ان کی اپنی پارٹیوں کو مخصوص مسائل کا سامنا ہو لیکن جموں و کشمیر میں انتخابات کے انعقاد کے معاملے پر خاموش رہیں گی۔
آزاد نے کہا’’وہ (اپوزیشن) جموں و کشمیر میں انتخابات کے انعقاد کے معاملے پر پچھلے چھ سالوں سے خاموش رہے۔ وہ اتحاد کی بات اسی وقت کرتے ہیں جب ان کی جماعتوں کو کوئی مسئلہ درپیش ہو۔ انہوں نے کچھ کیوں نہیں کہا؟ جموں و کشمیر جو کہ آرٹیکل ۳۷۰ کی منسوخی سے پہلے ایک اہم ریاست تھی، کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنا دیا گیا تھا اور دیگر جماعتوں نے یہاں تک کہ بھارتیہ جنتا پارٹیوں کی حمایت میں ووٹ دیا تھا‘‘۔
جموں کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ نے مزید تشویش کا اظہار کیا کہ مرکز کے زیر انتظام علاقے میں اسمبلی کی عدم موجودگی کی وجہ سے جموں و کشمیر میں دور دراز رہنے والے لوگوں کی قومی سطح پر نمائندگی کی کمی ہے۔ منتخب نمائندے اپنے اپنے علاقوں کے لوگوں کی نمائندگی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، لیکن یونین ٹیریٹری میں اسمبلی کے بغیر یہ ناممکن ہے۔
ڈی پی اے پی کے سربراہ نے کہا’’مرکز کے زیر انتظام علاقے میں اسمبلی کی عدم موجودگی کی وجہ سے‘ کوئی بھی ان لوگوں تک پہنچنے کے قابل نہیں ہے جو دور رہتے ہیں چاہے وہ وادی کشمیر میں ہوں یا جموں میں۔ منتخب لوگ اپنے علاقے کے لوگوں کی نمائندگی کرتے ہیں‘‘۔
آزاد نے کہا کہ ان کے سیاسی کیریئر میں یہ پہلا موقع ہے کہ خطے میں انتخابات نہیں کرائے جا رہے ہیں۔ان کاکہنا تھا’’یہ میرے تجربے اور سمجھ سے باہر ہے‘‘۔ آرٹیکل۳۷۰ کو ۲۰۱۹میں منسوخ کر دیا گیا تھا اور جموں و کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ میں تبدیل کر دیا گیا تھا اور لداخ اس سے الگ ہو کر ایک اور مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنا تھا۔
جموں و کشمیر میں آخری بار اسمبلی انتخابات نومبر‘دسمبر ۲۰۱۴ میں ہوئے تھے اور مارچ۲۰۱۵ میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) ، بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی مخلوط حکومت نے حکومت بنائی تھی۔ پی ڈی پی نے ۲۸ نشستیں حاصل کیں اور بی جے پی نے ۸۷ میں سے ۲۵ نشستیں حاصل کیں۔
تاہم، آزاد، سابق کانگریس لیڈر نے پارٹی کی حالیہ انتخابی کامیابیوں کا سہرا مختلف ریاستوں میں کانگریس کی قیادت کو دیا۔
’’میں نے کہا ہے کہ کانگریس کو مرکز میں نقصان ہوا ہے، ریاستوں میں نہیں۔ جہاں بھی ایک مضبوط ریاستی قیادت ہے، پارٹی واپس اچھال رہی ہے‘‘۔
آزاد نے جموں خطہ کے ڈوڈہ ضلع میں زلزلے سے ہونے والے نقصانات کے معاوضے کا مطالبہ کیا۔
ڈی پی اے پی کے سربراہ کاکہنا تھا’’ہمارے پاس اطلاع ہے کہ گنڈوہ اور بھدرواہ تحصیلوں میں، کچھ اسکولوں، ہسپتالوں اور گھروں کو نقصان پہنچا ہے، یہ تشویشناک بات ہے۔ ہمیں امید ہے کہ مزید زلزلے نہیں آئیں گے‘‘۔
آزاد نے کہا’’میں حکومت سے درخواست کرتا ہوں کہ طلبا کے لیے اسکولوں کی عمارتوں کے باہر کلاسز کا اہتمام کیا جائے۔ اسی طرح ہسپتالوں میں، تشویشناک حالت میں مریضوں کو وہاں رکھا جانا چاہیے جہاں زلزلے کا کوئی اثر نہیں ہوا‘‘۔
سابق وزیر اعلیٰ نے کہا کہ وہ ۲۰۲۴ کے لک سبھا انتخابات سے پہلے’اپوزیشن اتحاد‘سے کوئی فائدہ نہیں دیکھ رہے ہیں۔
بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار کی طرف سے بلائی گئی اپوزیشن جماعتوں کی میٹنگ کے بارے میں پوچھے جانے پر آزاد نے کہا کہ انہیں اس میں مدعو نہیں کیا گیا ہے۔
سابق وزیر اعلیٰ کاکہنا تھا’’اپوزیشن کے اتحاد کا فائدہ تب ہی ہوگا جب دونوں فریقوں کیلئے کچھ ہو، دونوں کے فائدے میں فرق ہو سکتا ہے ۔ یہ ففٹی ففٹی یا ۶۰/۴۰ ہو سکتا ہے‘ لیکن اس معاملے میں دونوں فریقوں کے پاس ایک دوسرے کو پیش کرنے کیلئے کچھ نہیں ہے۔‘‘