نئی دہلی// کانگریس نے منگل کے روز کہا کہ بالاسور ٹرین حادثہ میں 300 لوگوں کی جانیں گئیں اور حکومت کو چاہئے کہ وہ اس حادثہ پر آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرنے کے بجائے سچائی سامنے لانے کے لئے سی بی آئی سے نہیں، بلکہ ماہرین سے تحقیقات کرائے ۔
کانگریس میڈیا انچارج جے رام رمیش نے حکومت کی جانب سے بالاسور ٹرین حادثہ کی جانچ سی بی آئی سے کرانے کے اعلان کو سرخیوں میں اپنا نام چھاپنے کی کوشش قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس حادثہ سے متعلق رپورٹ آنے سے پہلے ہی سی بی آئی انکوائری کا اعلان لوگوں کی توجہ ہٹانے کی کوشش ہے ۔ انہوں نے چند مثالوں کا ذکر کرتے ہوئے سوال کیا کہ کیا واقعی سی بی آئی اور این آئی اے ایسے واقعات میں کچھ کر پائیں گے ۔
سات سال قبل پیش آنے والے کانپور اور کنیرو ٹرین حادثوں کا ذکر کرتے ہوئے ترجمان نے کہا کہ ان حادثوں کی تحقیقات این آئی اے کو اسی وقت سونپی گئی تھی لیکن آج سات سال گزرنے کے بعد بھی ان معاملوں میں چارج شیٹ داخل نہیں کی گئی ہے ۔
اس سے پہلے ، کانگریس کی ترجمان سپریہ شرینیت نے پارٹی ہیڈکوارٹر میں پریس کانفرنس میں کہا، "تفتیشی ایجنسی کے بجائے ماہرین سے تفتیش کی جانی چاہیے ، نہ کہ حکومت کی ناکامی سے توجہ ہٹانے کے لیے این آئی اے اور سی بی آئی کو ان معاملات میں ملوث کیا جانا چاہیے ۔”
انہوں نے سی بی آئی سے پوچھا کہ کیا وہ اس بات کی بھی تحقیقات کرے گی کہ ٹریک کی مرمت اور نئی پٹری بچھانے کا بجٹ 2018-19 میں 9,607 کروڑ روپے سے گھٹا کر 20-2019 میں 7,417 کروڑ روپے کیوں کر دیا گیا۔ کیا سی بی آئی اس بات کا پتہ لگائے گی کہ ریل چنتن شیویر میں جب ہر زون کو سیکورٹی پر بات کرنی تھی تو صرف ایک زون کو کیوں بولنے کی اجازت دی گئی اور کیمپ کی پوری توجہ ‘وندے بھارت’ پر کیوں تھی؟
کانگریس کے ترجمان نے کہا کہ "کیا سی بی آئی اس بات کا پتہ لگائے گی کہ سی اے جی کی رپورٹ میں یہ ذکر کیوں ہے کہ 2017-21 کے درمیان 10 میں سے تقریباً 7 حادثات ٹرین کے پٹری سے اترنے کی وجہ سے ہوئے ، یا ایسٹ کوسٹ ریلوے حفاظت کے لیے ٹریک کی دیکھ بھال کی جانچ کیوں نہیں ہوئی؟ کیوں نیشنل ریل سیفٹی فنڈ میں 79 فیصد کی کمی کیوں کی گئی اور وعدے کے مطابق 20,000 کروڑ کا سالانہ بجٹ اس فنڈ میں کیوں مختص نہیں کیا گیا؟
انہوں نے کہا، "کیا سی بی آئی اس بات کا بھی پتہ لگائے گی کہ ریلوے میں تین لاکھ سے زیادہ عہدے کیوں خالی پڑے ہیں؟ کیا سی بی آئی یہ پتہ لگائے گی کہ لوکو پائلٹ کو 12 گھنٹے سے زیادہ کام کرنے پر کیوں مجبور کیا جا رہا ہے ؟