فوج کی پاکستانی سیاست میں واپسی
پاکستان کا منظرنامہ ہر گذرتے روز کے ساتھ گہن زدہ ہوتا جارہاہے۔ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان نہ صرف ٹکرائو شدت اختیار کرتا جارہا ہے بلکہ اس ٹکرائو نے آئینی اور انتظامی اداروں تک کو تقسیم کرکے رکھدیا ہے۔ کچھ ہفتے قبل تک یہ خدشات پائے جارہے تھے کہ اداروں کی تقسیم درتقسیم پاکستان میںخانہ جنگی پر منتج ہوسکتی ہے لیکن تحریک انصاف پاکستان کے سربراہ اور سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری کے ردعمل میں اس کے حامیوں اورلیڈر شپ نے پورے پاکستان میں جس جلائو ، گھیرائو اور توڑ پھوڑ کا مظاہرہ کیا اس کے ردعمل میں خانہ جنگی کے خدشات یا امکانات تو ختم ہوگئے لیکن ساتھ ہی خود تحریک انصاف کے اندر ٹوٹ پھوٹ کا ایسا آغاز ہوا کہ اس کی مثال پاکستان کی سیاسی تاریخ میں نہیں ملتی۔ صورتحال یہ ہے کہ عمران خان اپنی بیگم کے ساتھ اکیلے رہ گئے ہیں یہاں تک کہ عدالت میں چند روز قبل ضمانتی مچلکے پیش کرنے کیلئے کوئی سامنے نہیں آیا البتہ عمران کے گھر کا ایک صفائی کرمچاری عدالت میں ایک ایک لاکھ مالیت کی تین ضمانتیں پیش کرنے کیلئے حاضر ہوا لیکن عدالت کے ا س سوال کہ اگر آنے والے کل میں عمران طلبی کے باوجود عدالت میں حاضر نہیں ہوئے تو وہ کیا کرے گاچنانچہ کوئی جواب نہ بن پرعدالت نے یہ ضمانتیں قبول نہیں کی۔
اب عمران کو لے کر ایک نئی جنگ چھڑ گئی ہے ۔ پاکستان کے وفاقی وزیر صحت نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ عمران کی جو میڈیکل رپورٹ آئی ہے اس کے مطابق عمران خان کا ذہنی توازن درست نہیں، وہ شراب اور کوکین کا عادی ہے جبکہ اس کی ٹانگ پر کوئی فریکچر نہیں ہے۔ لیکن ڈاکٹروں کی کسی ٹیم نے وفاقی وزیر صحت کی ا س میڈیکل رپورٹ کے تناظرمیں تمام دعوئوں کو مسترد کردیاہے۔
ادھر بعض سیاسی اور میڈیا حلقوں کا دعویٰ ہے کہ عمران پروجیکٹ جس سبک رفتاری کے ساتھ شروع کیاگیا تھا اس سے کہیںزیادہ رفتار کے ساتھ پروجیکٹ عمران کو سمیٹا جارہاہے اور اسی پروجیکٹ کے تحت ان سبھی بس لوڈوں کو اب ان لوڈ کرکے تحریک انصاف سے چن چن کر لوگوں کو ان کی پرانی جگہوں پر لوٹایاجارہاہے۔ کوئی پارٹی سے علیحدگی کا اعلان کررہاہے تو کوئی سیاست سے ہی کنارہ کشی کا اعلان کررہاہے۔
مسلم لیگ (ن) کی لیڈر مریم نواز کا کہنا ہے کہ عمران کا وقت ختم ہوگیا ہے ، لیکن ان کے کچھ سہولیت کار آج بھی عدلیہ اور فوج میں موجود ہے۔ ۹؍مئی کی دہشت گردی کا سارا منصوبہ عمران خان کی رہائش گاہ زمان پارک میں تیار کیاگیا۔ لیکن دہشت گردانہ کارروائیوں کے ارتکاب کے بعد اب خود عمران عبرت کی تصویر بنابیٹھا ہے۔قطع نظر اس کے کہ کون کیا کہہ اور کررہاہے خود عمران کے کچھ تازہ ترین بیانات اور مختلف معاملا ت کے حوالہ سے پہلے دیئے جاتے رہے بیانات ، دعوئوں پر یوٹرن لینے کی دوڑ واضح طور سے نظرآرہی ہے جبکہ پارٹی کی ٹوٹ پھوٹ اور اپنے ساتھیوں کی ایک ایک کرکے جدائی کی گرماہٹ اپنے اوپر محسوس کرتے ہوئے عمران خان نے مذاکرات کی پیشکش بھی کی ہے اور اپیل بھی تاہم یہ کہکر کی کہ پیش کش کو اس کی کمزوری نہ سمجھا جائے۔
لیکن مذاکرات کی اس پیشکش کو بھی اس بات سے مشروط کردیا کہ بات وزیراعظم سے نہیں ہوگی اور نہ وہ خود بات چیت میںشامل ہوں گے بلکہ ان کے نامزد کچھ لوگ بات کریں گے۔ عمران کی اس پیشکش کو کئی حکومتی ذمہ داروں بشمول وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے مسترد کردیا ہے۔ پیشکش مسترد کرنے کے دفاع میں یہ دلیل دی جارہی ہے کہ جب شاہ محمود قریشی کی قیادت میں عمران کی مذاکراتی ٹیم حکومتی ٹیم کے ساتھ انتخابات کے انعقاد کے شیڈول پر بات کررہی تھی اور ایک سمجھوتہ طے بھی پاگیا لیکن عمران نے اپنی ٹیم کے سربراہ کو سمجھوتے پر دستخط کرنے سے نہ صرف روک لیا بلکہ مزید بات چیت سے بھی منع کیا۔ اگر عمران اس باہمی سمجھوتہ کو قبول کرتے تو آج یہ منظرنامہ دیکھنے کو نہ ملتا اور نہ ادارے مزید تقسیم درتقسیم ہوتے۔
پاکستان کے اس مخصوص منظرنامے میں ایک اور دلچسپ موڈ اس وقت لایاگیا جب عمران کے حامی ولاگروں اور میڈیا چینلوں اور عمران مخالف ولاگروں اور میڈیا چینلوں نے پاکستان بھر کے نجومیوں کو چن چن کر اپنے پروگراموں میںپیش کرنا شروع کردیا جو سلسلہ فی الحال جاری ہے۔ وہ عمران کے مستقبل کے تعلق سے اور ان کے سیاسی مخالفین کے مستقبل اور حال کے تعلق سے اپنی اپنی من پسند پیش گوئیاں کررہے ہیں۔ ان نجومیوں کی حق اور مخالفت میں پیش گوئیاں سن کر نہ صرف حیرت ہوتی ہے بلکہ پاکستانی عوام کی بحیثیت مجموعی عقل ودانش پر ماتم کرنے کو اس لئے جی کرتا ہے کہ ان کا دعویٰ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ہے جبکہ خود عمرانی سیاست ریاست مدینہ کے نظریہ کی دعویدار ہے جس دعویٰ کو خود عمران خان اور اس کے حامیوں کی بڑی تعداد اپنے باہم متضاد قول وفعل، اپروچ اور غلط طریقہ کار سے جھٹلاتی رہی ہے۔
اس ساری صورتحال کے حاشیہ پر پاکستان کے کچھ سنجیدہ حلقوں میںیہ بحث بھی ہورہی ہے کہ عمران کو سیاست سے اور منظر سے خارج کرنے کے بعد پاکستان کا سیاسی نقشہ کیاہوگا، کس حدتک تبدیلی واقع ہوسکتی ہے، کیا ملکی معیشت سنبھل جائیگی اور کیا اداروں کی تقسیم درتقسیم کا سلسلہ تھم جائے گا اور سب سے بڑھ کر کیا پاکستان کی فوج، جس نے کچھ ماہ قبل سیاست سے کنارہ کشی کا اعلان کیا تھا لیکن اب ایک نئے روپ میں واپس سیاست میںداخل ہوچکی ہے مستقبل کے حوالہ سے کس نوعیت کا کردار اپنے لئے منتخب کریگی؟
پروجیکٹ عمران ، جس کو خود فوج نے تقریباً دس سال قبل لانچ کیاتھا، اب خود اپنے ہی ہاتھوں سمیٹنے کے بعد تحریک انصاف سے کنارہ کشی کرانے والوں کیلئے کیا رول اداکرائیگی یاانہیں یونہی ان کی اپنی مرضی کے مطابق کوئی نیا سیاسی راستہ اختیار کرنے کیلئے آزاد چھوڑ دے گی، اس پر فی الحال نظریں مرتکز رہینگی کیونکہ یہ سارے انہی کے مہرے ہیں جنہیں پاکستان میں عام فہم زبان میں گیٹ نمبر ۴ کے ملازمین اور پہرے دار تصورکیاجارہاہے۔ اس تعلق سے پاکستان کے فوجی سربراہ جنرل عاصم منیر اور اس کے حامی جرنلوں کی آئندہ حکمت عملی پر نگاہیں مرتکز رہینگی، البتہ آثار اس طرف ابھی سے اشارہ کررہے ہیں کہ ایک نئی سیاسی پارٹی کو وجود میںلانے کی تیاریاں شروع ہوگئی ہیں اور عین ممکن ہے کہ اب تک جو لوگ تحریک انصاف سے ان لوڈ کئے گئے ہیں ان کی اکثریت کو اس نئی سیاسی بس میں سوار کرانے کے زیادہ امکانات ہیں، اس نئی پارٹی کا ممکنہ نام تحریک انصاف فاروڈ بلاک ہوسکتا ہے۔