تحریر:ہارون رشید شاہ
ایک زمانہ تھا کہ کشمیری خود مرغی ذبح کرنے سے بھی کتراتے تھے …ڈھونڈتے رہتے تھے کہ کہیں کوئی مل جائے جو مرغی کو ذبح کرسکے … اور یہ بات ‘یہ حقیقت زیادہ پرانی نہیں ہے …یہ تیس چالیس سال پہلے کی بات ہے ۔ اور آج کی بات کریں تو … توملک کشمیر میں جو ہو رہا ہے ‘اسے ضبط تحریر میں لانے سے ہمارے ہاتھ کانپ اٹھتے ہیں …اور اس لئے اٹھتے ہیں کہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا … کسی نے خیالو ں میں بھی نہیں سوچا تھا کہ ایک وقت ایسا بھی آئیگا… ملک کشمیر میں آئیگا جب کشمیری لالچ میں اتنے اندھے ہو جائیں گے کہ انہیں اپنے رشتوں ناطوں کا بھی کوئی پاس لحاظ نہیں رہے گا اور… اور بالکل بھی نہیں رہے گا ۔ اعتراف جرم کے باوجود ہم اب بھی اس بات ‘ اس حقیقت پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ دو بھائیوں نے اپنی والدہ سے مل کر اپنے معمر والد کو قتل کیا اور… اور روپے پیسے کی لالچ میں آکر قتل کیا ۔ بھائیوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا … بالکل بھی نہیں کیا بلکہ اپنی اس گھناؤنی حرکت کو چھپانے کیلئے انہوں نے اپنے باپ کی لاش کو جھیل ڈل میں پھینک دیا اور… اور بڑے آرام اور سکون کے ساتھ اپنے گھر واپس آئے اور اپنی والد ہ کو راستے کا کانٹا ہٹانے کی نوید سنائی ۔مسئلہ صرف ان ۹۰ لاکھ روپیوں کا تھا جو ان کے مقتول والد کو اپنی کوئی جائیداد فروخت کرنے پر ملے تھے … بیٹے اور ماں اس رقم کو ان کے حوالے کرنے کا تقاضہ کررہے تھے … لیکن ان کا والد اس کیلئے تیار نہیں ہو رہا تھا اور… اور بالکل بھی نہیں ہو رہا تھا ۔باپ کی رقم کو ہڑپنے کا انہیں ایک ہی راستہ نظر آیا اور … اور وہ باپ کو اپنے راستے سے ہٹانے کا راستہ تھا… جس پر چل کر انہوں نے باپ کو راستے سے ہٹا تو دیا لیکن…لیکن خود ان کی منزل جیل بن گئی ۔پولیس کے سامنے دونوں بھائیوں نے اپنے اس جرم‘ جس کی ملک کشمیر میں کوئی نظیر نہیں ملتی ہے ‘ کا اعتراف کیا … اب پولیس کی ذمہ داری ہے کہ وہ قانون کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ان کیخلاف تحت ضابطہ ایسا کیس بنائے کہ … کہ جس طرح اس واقعہ کی کوئی نظیر نہیں مل سکتی ہے اسی طرح دونوں بھائیوں کو ملنے والی سزا کی بھی کوئی نظیر نہیں ملنی چاہئے اور… اور بالکل بھی نہیں ملنی چاہئے ۔ہے نا؟